لاہور: (سلمان غنی) ضمنی انتخابات کے نتائج اور سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مجوزہ لانگ مارچ کی کال پر اپنی حکمت عملی کے تعین کے لئے پی ڈی ایم نے اپنا سربراہی اجلاس 21 اکتوبرکو طلب کیا ہے۔
اجلاس کی ٹائمنگ اس حوالے سے اہم ہے کہ سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے اور دوسری جانب پی ڈی ایم کو ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر شکست نے ایک نئی کیفیت سے دو چار کردیا ہے،خصوصاً مسلم لیگ( ن) کو جسے پنجاب کی طاقتور اور اثر و رسوخ والی جماعت تصور کیا جاتا ہے۔
فیصل آباد اور ننکانہ صاحب میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر ہونے والی شکست خود ن لیگ کیلئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ 2018ء کے انتخابات میں فیصل آباد میں عابد شیرعلی، فرخ حبیب کے مقابلے میں چند سو کی لیڈ اور ننکانہ صاحب میں ڈاکٹر شذرہ ، بریگیڈئر(ر) اعجاز شاہ کے مقابلے میں تقریباً اڑھائی ہزار ووٹوں سے ہاری تھیں۔ اب لیگی حلقے امکان ظاہر کرتے نظر آرہے تھے کہ وہ ان نشستوں پر اچھے نتائج دے پائیں گے لیکن یہاں سے ہونے والی اس شکست نے مسلم لیگ( ن) کی قیادت کیلئے کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آج سے چند ماہ قبل ہونے والی سیاسی تبدیلی سے قبل مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ کے حوالے سے یہ تاثر عام تھا کہ آنے والے انتخابات میں یہ کامیابی کی کنجی ہوگی لیکن حکومتی تبدیلی کے عمل کے بعد حقائق بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔ حکومت سے نکلنے کے بعد عمران خان اور ان کی جماعت کی جانب سے آنے والے رد عمل نے نہ صرف ان کا ووٹ بینک بحال کیا ہے بلکہ ان کی مقبولیت میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
دوسری جانب ضمنی انتخابات کے نتائج نے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت میں حوصلہ پیدا کیا ہے اور انہوں نے پریس کانفرنس میں ایک مرتبہ پھر بھر پور انداز میں چیلنج دیا ہے کہ اگر فوری انتخابات کا اعلان نہ کیا گیا تو وہ اکتوبر میں ہی لانگ مارچ کی کال دیں گے۔
عمران خان بظاہر تو عام انتخابات کو ٹارگٹ کرتے نظر آرہے ہیں لیکن حقیقتاً وہ یہ نہیں چاہتے کہ نومبر میں ہونے والی اہم تقرری موجودہ حکومت کرے۔ جہاں تک ان کی جانب سے لانگ مارچ کا تعلق ہے تو یہ تجربہ عمران خان 25 مئی کو کر کے دیکھ چکے ہیں جس میں وہ نہ تو اسلام آباد میں ہنگامی اور غیر معمولی صورتحال پیدا کرسکے اور نہ ہی حکومت پر اثر انداز ہوسکے ۔ عمران خان کے لانگ مارچ کے حوالے سے تاثر یہ ہے کہ وہ اب2014ء اور17ء کی طرح پر اعتماد نظر نہیں آتے بلکہ خاصے محتاط ہیں۔
پہلے پہل تو انہوں نے ستمبر کو فیصلہ کن قرار دیا اور پھر اکتوبر کو ٹارگٹ کرتے ہوئے نظر آئے اور اب وہ مسلسل یہ کہہ رہے ہیںکہ وہ لانگ مارچ کی کال اکتوبر میں ہی دیں گے ۔ہوسکتا ہے کہ وہ کال اکتوبر میں دے دیں لیکن ہو سکتا ہے کہ لانگ مارچ کی نوبت ہی نہ آئے۔ ایک جانب وہ حکومت پر دباؤ بڑھا رہے ہیں تو دوسری جانب ان سے پس پردہ مفاہمت کی کوشش بھی جاری ہے۔ وہ آنے والے انتخابات کی تاریخ پر زور دے رہے ہیں جبکہ حکومت نومبر کے انتظار میں ہے۔
لہٰذا اکتوبر اور نومبر کو اہم قرار دیا جاسکتا ہے اور مفاہمانہ کوششوں اور کاوشوں میں سرگرم لوگ یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ ہوسکتا ہے انتخابات اکتوبر، نومبر کی بجائے مارچ اپریل تک ہو جائیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا حکومت اس کیلئے تیار ہے ؟اس حوالے سے اگر حکومتی حلقوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ انتخابات کے حوالے سے اپنے اصولی موقف کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور قبل از وقت انتخابات کیلئے تیار نہیں ہیں۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے ۔اب ایک طرف عمران خان کی احتجاجی تحریک کا چیلنج درپیش ہے تو دوسری طرف مہنگائی ، خصوصاً بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہیں ۔ کہایہ جارہا ہے کہ اس حوالے سے ریلیف ممکن نہ ہوا تو پھر پی ڈی ایم اور اس میں شامل جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ (ن) کا مستقبل روشن نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کو سیاسی فیصلوں کے حوالے سے اہم قرار دیا جارہا ہے اور دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ قبل از وقت انتخابات پر لچک دکھانے کیلئے تیار ہوتے ہیں یا نہیں ؟
الیکشن کمیشن نے پنجاب حکومت کو سات روز میں بلدیاتی قانونی بنانے کے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر انہوں نے سات روز کے اندر الیکشن کا اعلان نہ کیا تو الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوائے گا۔
عدالت عظمیٰ کے احکامات کے تحت متعدد بار الیکشن کمیشن پنجاب حکومت کو بلدیاتی انتخابات کرانے پر زور دیتا رہا ہے اور ہر مرتبہ حکومت کی جانب سے یقین دہانی کے باوجود اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی اور اس کی بڑی وجہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے کے عمل سے احتراز اور ترقیاتی فنڈز کے استعمال میں اپنی من مانی قائم رکھنا ہے۔