کراچی، لاڑکانہ: (دنیا نیوز) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اعظم خان سواتی کے خلاف اداروں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے جانے پر کراچی، لاڑکانہ اور کوئٹہ میں متعدد مقدمات درج کر لیے گئے۔
سندھ کے ضلع کراچی میں اعظم سواتی کے خلاف 5، لاڑکانہ اور کوئٹہ میں ایک ایک مقدمہ درج کیا گیا۔ لاڑکانہ ضلع قمبر شھداد کوٹ کے علاقے نصیر آباد تھانہ میں مقدمہ درج کیا گیا۔
درج کیے گئے مقدمے کے مطابق اعظم سواتی نے 26 نومبر کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پاک افواج حاضر سروس افسران اور ریاست کے اداروں کے لیے تضحیک آمیز الفاظ استعمال کیے جس سے دل آزاری ہوئی۔
مدعی نے مؤقف اختیار کیا کہ فوج مخالف ٹوئٹ نفرت پھیلانے کا باعث بنے اور پاکستان کا شہری ہونے کے ناتے بہت دکھ پہنچا۔ لاڑکانہ مقدمے میں پی پی سی 131.153.504.505 دفعات کا اندراج کیا گیا ہے۔
اعظم سواتی کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
اس سے قبل اسلام آباد کی جوڈیشل مجسٹریٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اعظم خان سواتی کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
ایف آئی اے نے سینیٹر اعظم سواتی کو ڈیوٹی جج وقاص احمد راجا کی عدالت میں پیش کیا جہاں ایف آئی اے نے ان کے 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، مگر عدالت نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔
اعظم سواتی کی جانب سے بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے جہاں انہوں نے کہا کہ اعظم سواتی پر جسمانی اور دماغی تشدد کے اثرات برقرار ہیں، ان کو جسمانی طور پر بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ویڈیو کے ذریعے دماغی ٹارچر بھی کیا گیا۔
بابر اعوان نے کہا کہ یہ قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں، آٹا اسمگلنگ روک نہیں سکتے، یہ قانون کی حکمرانی نہیں، قانون کا مذاق اور قانون کا قتل ہے۔ زندگی کا سب سے بڑا محافظ موت کا وقت ہے جو اللہ کی قدرت میں ہے، ہم موت سے نہیں ڈرتے۔ اعظم سواتی کی جان کو بھی خطرہ ہے، جان تو سب سے پیاری چیز ہے، اللہ قرآن میں بھی کہتا ہے۔
انہوں نے نے ایف آئی اے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان دیں کہ اگر ان کی حراست میں اعظم سواتی کو کچھ ہوتا ہے تو یہ ذمہ دار ہوں گے۔ جو ٹوئٹس کیے گئے وہ ایف آئی آر میں لگائی گئی دفعات پر پورا نہیں اترتے، پولیس کی جانب سے لیے گئے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اعظم سواتی کا 164 کا بیان نہیں لیا گیا جبکہ ان پر پچھلی بار بھی وحشیانہ تشدد کیا گیا تھا اور اب تک وہ اس تشدد سے ٹھیک نہیں ہوئے۔
دوران سماعت تفتیشی افسر نے کہا کہ کچھ متنازع ٹوئٹس ہیں جس کے باعث سینیٹر کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ایک بیانیہ بنایا جارہا ہے، ان چیزوں پر پہلے بھی ان (اعظم سواتی) پر ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے جبکہ انہوں نے ٹوئٹ سے انکار نہیں کیا اور دوسری بار اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔
بابر اعوان نے کہا کہ یہاں جو ایف آئی اے کے لوگ موجود ہیں ان کا نام آرڈر شیٹ میں شامل کیا جائے جس پر جج نے استفسار کیا کہ میں صرف ان کا نام شامل کروں گا جو لوگ یہاں موجود ہیں۔
ایف آئی اے کی جانب سے اعظم سواتی کے 8 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی مگر عدالت نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔
اعظم سواتی گرفتار
قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
اسلام آباد سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر (سی سی آر سی) کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ انیس الرحمٰن کی مدعیت میں ریاست کی شکایت پر ایف آئی اے کی جانب سے اعظم سواتی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن (ایف آئی آر) رپورٹ درج کی گئی تھی۔
سابق وفاقی وزیر کے خلاف مقدمہ پیکا 2016 کی دفعہ 20 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ131، دفعہ 500، دفعہ 501، دفعہ 505 اور دفعہ 109 کے تحت درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجواہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے۔‘
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جارہی تھی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 26 نومبر کو اعظم سواتی نے ایک ٹوئٹ شیئر کی تھی جس میں لکھا تھا کہ وہ سینئر فوجی افسر کے خلاف ہر فورم پر جائیں گے جبکہ 19 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ میں لکھا گیا کہ ملک کی تباہی کے ذمہ دار جرنیل ہیں جس پر اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ۔‘
ایف آئی آر کے مطابق 24 نومبر کو ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ کی ٹوئٹ میں لکھا گیا تھا کہ ’تبدیلی کا آغاز اداروں سے کرپٹ جرنیلوں کا گند صاف کرنے سے ہونا چاہیے تھا،‘ جس پر بھی اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ‘۔
ایف آئی آر میں مزید لکھا گیا ہے کہ 24 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ نے ایک متنازع ٹوئٹ کیا گیا جس پر اعظم سواتی نے انتہائی جارحانہ انداز میں جواب دیا۔
ایف آئی آر کے مطابق سینیٹر کے خلاف ماضی میں بھی اسی طرح کی شکایات درج ہوئی ہیں، مزید لکھا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے ریاست کے ستونوں کے درمیان بدنیتی پیدا کرنے کی کوشش کر کے عام لوگوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں کو اکسانے کی کوشش کی۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے غلط معلومات کی بنیاد پر رازداری کی خلاف وزری کی جو کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو میوٹنی یا اپنے فرائض میں کوتاہی پر اکسانے کی کوشش ہے، مزید کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات سے عوام میں خوف پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔