شمشال…. روائتوں کی امین ایک منفرد وادی

Published On 22 May,2023 01:06 pm

لاہور: (خاور نیازی) پاکستان اس لحاظ سے ایک خوش قسمت ملک ہے جسے قدرت نے خوبصورت وادیوں سے مالا مال کر رکھا ہے، ایسی ہی پاکستان کی بلند ترین وادیوں کی فہرست میں شمشال نامی ایک وادی کا ذکر ملتا ہے جس کا حسن ہر سال لاکھوں لوگوں کو دنیا کے کونے کونے سے یہاں کھینچ لاتا ہے۔

محل وقوع :پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں وادی ہنزہ میں واقع ایک گاؤں شمشال ہے جو سطح سمندر سے لگ بھگ 3100 میٹر کی بلندی پر واقع ہے، شمشال پاکستان میں چین کی سرحد کے قریب آخری گاؤں ہے، اس کی سرحدیں چین اور بلتستان سے ملتی ہیں، وادی شمشال میں پامیر کا علاقہ بھی شامل ہے، یہ وادی ہنزہ کے نزدیک پسو سے 55 کلومیٹر کے فاصلے پر بجانب مشرق واقع ہے۔

وادی شمشال بنیادی طورپر انتہائی بلندی پر واقع دنیا کی سہولتوں اور آسانیوں سے محروم ایک دشوار گزار پہاڑی خطہ ہے، اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ سن 2003ء تک یہ وادی رابطہ سڑک کی عدم دستیابی کی وجہ سے دنیا سے کٹی ہوئی تھی جبکہ اس سرزمین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے دنیا کو متعدد نامور ترین کوہ پیما دیئے ہیں جن میں دنیا کی بلند ترین چوٹی سر کرنے والی کوہ پیما ثمینہ بیگ، رجب علی شاہ اور مہربان علی شاہ کے نام نمایاں ہیں۔

شمشال میں سات ہزار میٹر سے بلند چار پہاڑ موجود ہیں جنہیں دنیا بھر کے کوہ پیما ہر لمحہ سر کرنے کیلئے بے چین رہتے ہیں، بنیادی طور پر اس وادی کے باسیوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور مویشی پالنا تھا لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے اب یہاں کے بیشتر باسیوں نے سیاحت کو اپنا ذریعہ معاش بنا لیا ہے، شمشال وادی چار دیہاتوں، شمشال گاؤں ، خضر آباد، امین آباد اور فرمان آباد پر مشتمل ہے، یہاں کے باسیوں کو ’’واخی ‘‘ کہا جاتا ہے، واخی لوگ نہایت محنت کش، جفا کش اور خود انحصاری کے فلسفے پر عمل کرنے والے لوگ ہیں۔

نومس، ایک خوبصورت روایت: ’’ نومس ‘‘ ، صدیوں سے رائج شمشال کی ایک خوبصورت رسم اور روایت چلی آ رہی ہے جو درحقیقت اس سرزمین کی پہچان اور شناخت ہے، نومس بنیادی طور پر واخی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی ’’انسان دوستی ، خدمت خلق ، یا انسانی بھلائی کے کام ‘‘کے ہیں، اس روایت کے تحت نومس ایک ایسا نظام ہے جس میں برادری کے صاحب ثروت افراد کسی رشتہ دار یا پیارے کی یاد (خواہ وہ زندہ بھی ہو ) اس کی تعظیم اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رحمت کے حصول کے لئے فلاحی کام جس میں پلوں کی تعمیر، سڑک اور عمارات کی تعمیر شامل ہوتے ہیں سرانجام دیتے ہیں۔

شمشال کے باسی ’’نومس ‘‘ کے تحت مفاد عامہ کے کام کرنے والوں کا زندگی بھر احسان یاد رکھتے ہیں، شمشال میں زیادہ تر انفرا سٹرکچر کی ترقی میں پلوں اور سڑکوں کی تعمیر، بجلی کے کھمبوں کی تنصیب ،گاؤں کی سڑک کنارے پتھروں کی دیوار کی تعمیر، شمشال پاس کے ساتھ ساتھ مٹی اور پتھر سے بنے گھر، گاؤں میں لگے 300 کے لگ بھگ سولر پینل، موبائل ٹاورز کی تنصیب، سکولوں کی عمارات کی تعمیر ایسے ہی متعدد کام شمشال میں ’’نومسی روایات ‘‘ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

شمشال اور جنگلی حیات: یاک دنیا بھر میں ایک نایاب اور بیش قیمت جانور کی حیثیت سے جانا جاتا ہے، پاکستان میں شمشال، یاک کی سب سے بڑی آماجگاہ کے طور پر جانا جاتا ہے، 1999ء میں ایک سروے کے دوران وادی شمشال میں 1000 یاک کی موجودگی کا بتایا گیا تھا، یاک کو یہاں کے مقامی افراد گوشت، دودھ اور باربرداری کے علاوہ یہاں کے تاریخی کھیل پولو کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہاں مارکو پولو بھیڑ، مارخور، آئی بیکس، بلو شیپس بھی کثرت سے پائی جاتی ہیں جبکہ ان میں سے بیشتر جانور پوری دنیا میں تیزی سے معدومیت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

شمشال سے جڑے تاریخی حقائق: سابق صدر پاکستان جنرل ایوب خان اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ چین کے ساتھ جب سرحدوں کے تعین پر مذاکرات جاری تھے تو میں نے چین کو یہ باور کرایا کہ شمشال کے باسیوں کا روزگار اس کی وسیع و عریض چراگاہوں سے وابستہ ہے ان چراگاہوں سے محرومی اہل شمشال سے ذریعہ معاش چھیننے کے مترادف ہوگا، چنانچہ چین نے پاکستان کے اس مؤقف کو تسلیم کر لیا اور یوں 3000 مربع کلومیٹر کا یہ وسیع وعریض علاقہ پاکستان کی ملکیت تسلیم کر لیا گیا۔

شاید کچھ لوگوں کے لئے یہ انکشاف نیا ہو کہ معروف برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کی برطانوی آرمی کی ٹریننگ کے بعد پہلی تعیناتی 1896ء میں برطانوی انڈیا کے شمالی علاقہ جات میں ہوئی تھی، یہاں قیام کے بعد چرچل نے اپنی ڈائری کو جب ’’دی سٹوری آف مالا کنڈ فیلڈ فورس ‘‘ کے نام سے کتابی شکل دی تو اس نے ایک جگہ لکھا کہ ’’پورے یورپ کے پہاڑی سلسلے ایلپس میں 6000 میٹر بلندی کی اتنی چوٹیاں نہیں جتنی صرف ہنزہ کے چھوٹے سے علاقے میں ہیں۔ ‘‘

تاریخی روایات: اگر آپ وادی شمشال کے دورے کے دوران کسی پرانے شمشالی سے یہ سوال کریں کہ پوری دنیا سے رابطہ اور ذرائع آمدورفت نہ ہونے کے باوجود کہ جہاں سے صرف نکلنے کے لئے تین دن کا انتہائی پر خطر اور کٹھن پیدل سفر کرنا پڑتا ہے آخر یہاں آبادی کیوں کر ہوئی ؟ تو آپ کو یہاں کے لوگ نسل در نسل سرایت کرتی کچھ روایات ضرور سنائیں گے، ایک سب سے مقبول روایت کچھ یوں ہے۔

’’ لگ بھگ 800 سال قبل ہمارے جد امجد جن کا نام ماموں سنگھ تھا نے افغانستان کے ایک شاہی خاندان کی ایک لڑکی سے شادی کر لی اور اسے لے کر اسی وادی کی جانب آ نکلے، شمشال کے علاقے میں انہیں کچھ مکانات نظر آئے جو غالباً کرغستان سے آنے والے خانہ بدوشوں کے تھے، ماموں سنگھ اور شہزادی بیگم یہیں آباد ہوگئے۔

ایک دن افغانستان کے شہر بدخشاں سے ایک بزرگ ادھر آ نکلے، شہزادی نے ان کے احترام میں اپنا دوپٹہ بچھایا تو بزرگ نے خوش ہو کر اس شہزادی کو دعا دی اور کچھ ہی عرصہ بعد اس کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی جسکا نام شیر خان رکھا گیا، شیر خان یاک پر پولو کھیلنے کا ماہر تھا، ایک دن چین سے آئے گھڑ سواروں نے شیر خان کو چیلنج کیا کہ وہ اگر انہیں ہرا دے تو شمشال کا یہ سارا علاقہ تمہیں دے دیا جائے گا، چنانچہ شیرخان نے چینیوں کو پولو میں شکست دے دی اور یوں اس دن کے بعد یہ سارا علاقہ شمشالیوں کی ملکیت ہوگیا‘‘۔

خاور نیازی سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں۔
 

Advertisement