اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) نگران حکومت کو آتے ہی بڑے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ گیا ، ملک بھر میں بجلی کے بلوں کیخلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو چکے ہیں مگر پریشان کن بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس غصے سے بھرے عوام کو ریلیف دینے کیلئے بھی کچھ نہیں۔
نگران حکومت ملک میں جاری احتجاجی مظاہروں کی صورت میں عوامی ردعمل کے بعد کئی مرتبہ سر جوڑ کر بیٹھی مگر آئی ایم ایف کی بندشوں کے باعث کوئی فیصلہ نہ کر سکی، ملک میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کم کرنا تو دور کی بات اس میں ہونیوالا اضافہ ہی تھمنے کا نام نہیں لے رہا، مزید 2 روپے 7 پیسے اضافے کیلئے سی پی پی اے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے، اب سے چند گھنٹوں بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ جلتی پر تیل کا کام کرے گا۔
ڈالر کی اڑان اور روپے کی گرتی ہوئی قدر آنے والے وقت میں مزید معاشی مشکلات کا پیغام دے رہی ہے مگر ایکسچینج ریٹ، بجلی اور تیل کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے نگران حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، پاکستان نے آئی ایم ایف کیاتھ باضابطہ رابطہ کر کے بجلی کے بلوں میں ریلیف کیلئے بات چیت کا وقت مانگ لیا ہے۔
آئی ایم ایف کیساتھ پلان شیئر ہونے کے بعد عالمی مالیاتی ادارہ فیصلہ کریگا کہ نگران حکومت پاکستانی عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف کیلئے کوئی فیصلہ کر سکتی ہے یا نہیں، موجودہ ملکی معاشی صورتحال آئندہ آنے والے دنوں کا سیاسی منظر نامہ طے کریگی، اس عوامی ردعمل کے باوجود فوری عوامی ریلیف نہ دینے کی مجبوری ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کے ٹائم فریم پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
سابق حکمران جماعت طے شدہ طریقے کے تحت انتخابات کا انعقاد چند ماہ کیلئے التوا کا شکار کرانے میں بظاہر کامیاب ہو گئی مگر امریکا اور مغربی ممالک پاکستان کے انتخابی عمل اور ٹائم فریم پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور امریکی حکام کی جانب سے تو آئے روز پاکستان میں بر وقت اور شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے بیانات سامنے آرہے ہیں، امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی چیف الیکشن کمشنر اور نگران وزیر اعظم کیساتھ انتخابات کے معاملے ملاقاتیں بھی بتا رہی ہیں کہ مغرب پاکستان میں انتخابات کے غیر ضروری التوا کو سپورٹ نہیں کریگا۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی نے ملک میں 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کا مطالبہ کر دیا ہے مگر اس بات پر تسلی بخش جواب نہیں دے پا رہی کہ اب 90 روز میں انتخابات کا مطالبہ کرنے والی جماعت نے مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے دوران خاموشی کیوں اختیار کیئے رکھی۔
ن لیگ کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے نئی مردم شماری پر الیکشن کا معاہدہ کیا تھا مگر پاکستان پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ مردم شماری کے نتائج کی منظوری دیتے وقت یہ طے نہیں ہوا تھا کہ اس سے انتخابات تاخیر کا شکار ہو جائیں گے، اس صورتحال میں 90 روز کے اندر یعنی نومبر 2023 تک انتخابات کا انعقاد کے معاملے پر ماضی قریب کی اتحادی جماعتیں اب تقسیم نظر آتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی انتخابات کے انعقاد کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے مؤقف کی حمایتی بن چکی ہے جبکہ ن لیگ ، جے یو آئی ف اور ایم کیو ایم نئی حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات کی حامی ہیں، ایم کیو ایم پاکستان نے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ کراچی سے قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے۔
پاکستان پیپلز پارٹی جلد الیکشن کیلئے جن وجوہات کی بنیاد پر شور مچاتی نظر آرہی ہے ان میں پہلی وجہ یہ ہے کہ آئندہ منتخب سیٹ اپ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو وفاق میں اسکی خواہش کے مطابق حصہ ملتا نظر نہیں آرہا، نگران سیٹ اپ کا طوالت اختیار کرنا سندھ حکومت میں بھی صورتحال خراب کر سکتا ہے، آنے والے چند روز میں پاکستان پیپلز پارٹی مہنگائی اور عوامی ایشوز کو بنیاد بنا کر انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی بنا رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو اندازہ ہو چکا ہے کہ انتخابات میں تاخیر کا فائدہ مسلم لیگ ن کو ہوگا، میاں نواز شریف نے وطن واپسی کی ٹکٹ کٹوانے کا فیصلہ تو کر لیا ہے مگر یہ بات حیران کن اور دلچسپ ہو گی کہ اکتوبر 2023 کو وطن واپس لوٹنے والے میاں نواز شریف کس بیانیے کے ساتھ اس عوام کے سامنے پیش ہونگے جو ماضی کی حکومتی پالیسیوں کے باعث ڈیفالٹ کر چکی ہے۔
صرف سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر ملکی اداروں کے درمیان بھی رسہ کشی جاری ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ایوان صدر کے درمیان گزشتہ 7 روز سے جاری کھینچا تانی کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔
صدر مملکت نے 23 اگست کو چیف الیکشن کمشنر کو ملاقات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 48 فائیو کے تحت اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد صدر مملکت 90 روز میں تاریخ مقرر کرنے کے پابند ہیں، اگلے ہی روز الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدر کے اس دعوے کو رد کر دیا، الیکشن کمیشن کے مطابق صدر مملکت یہ سمجھتے ہیں کہ اسمبلی انہوں نے تحلیل کی مگر انہوں نے آئین کے آرٹیکل 58 ون کے تحت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عملدرآمد کرتے ہوئے ایسا کیا۔
الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں ترمیم کے بعد ایسی صورت میں عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس آچکا ہے، چیف الیکشن کمشنر کے مطابق اگر صدر آئین کے آرٹیکل 58 ٹو کے تحت اسمبلی تحلیل کرتے تو انکے پاس انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہوتا، آرٹیکل 58 ٹو کے تحت اگر تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں کسی کے پاس بھی سادہ اکثریت نہ رہے تو ایسی صورت میں صدر مملکت خود قومی اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے کورے جواب کے بعد صدر مملکت نے وزارت قانون و انصاف کو خط لکھ کر رائے مانگی کہ کیا الیکشن کمیشن کا مؤقف درست ہے کہ انتخابات کی تاریخ سے متعلق اختیار اسکے پاس ہے، جس پر وزارت قانون نے بھی الیکشن کمیشن کی ہاں میں ہاں ملائی اور جوابی خط میں کہا کہ یہ اختیار صدر مملکت کی بجائے الیکشن کمیشن کے پاس ہے، اس بات کا امکان ہے کہ وزارت قانون کی رائے کے باوجود ایوان صدر کی جانب سے انتخابی تاریخ کے اختیار کے معاملے پر ردعمل آسکتا ہے۔
انتخابات کے جلد انعقاد کیلئے سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ آف پاکستان پہنچنا شروع ہو گئی ہیں پاکستان تحریک انصاف کے بعد جماعت اسلامی نے بھی 90 روز میں انتخابات کیلئے عدالت عظمیٰ سے رجوع کر لیا ہے، یوں انتخابات کی تاریخ کا معاملہ اب سپریم کورٹ آف پاکستان میں طے ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔