لاہور: (خصوصی رپورٹ : محمد اشفاق) نگران پنجاب حکومت نے نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطل کردی، ٹرائل کورٹ نے نواز شریف کو دس سال قید کی سزا سنائی تھی۔
نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کے لیے نگران پنجاب حکومت کو تحریری درخواست دی تھی، نواز شریف نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پنجاب حکومت کو درخواست دی جس میں موقف یہ اختیار کیا گیا تھا کہ یہ مقدمہ سیاسی بنیادوں پر قائم کیا گیا، سزا حقائق کے برعکس ہے، نواز شریف اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہو کر بے گناہی ثابت کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف کی سزا کو معطل کیا جائے۔
نگران پنجاب حکومت نے نواز شریف کی درخواست کو گزشتہ روز سماعت کے لیے مقرر کیا اور نواز شریف وکلاء کی اسلام آباد میں موجودگی پر ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت کی گئی، وڈیو لنک پر نواز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز نے دلائل دئیے جبکہ نگران پنجاب کابینہ اور چیف سیکرٹری نے وکلا کا ویڈیو لنک پر موقف سننے کے بعد متفقہ طور پر درخواست منظور کرلی اور نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطل کر دی۔
28 جولائی 2017 کو پاناما پیپرز سکینڈل میں سپریم کورٹ نے حتمی فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو نااہل قرار دیا اور شریف خاندان کے خلاف نیب کو تحقیقات کا حکم دیا، ساتھ ہی احتساب عدالت کو حکم دیا تھا کہ نیب ریفرنسز کو 6 ماہ میں نمٹایا جائے، سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن کو ان کیسز میں نگران جج مقرر کردیا تھا جس کے بعد ایوان فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت نے 6 جولائی 2018 کو نواز شریف کو 10سال، مریم نواز کو 7 اور کپیٹن ریٹائرڈ صفدر کو 1 سال قید کی سزا سنادی تھی۔
اس دوران نوازشریف اپنی اہلیہ اور مریم نواز اپنی والدہ کو بیمار چھوڑ کر گرفتاری دینے کے لیے وطن واپس آئے اور 13 جولائی 2018 کو ایئر پورٹ سے گرفتار کر کے انہیں جیل منتقل کیا گیا جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں 19 ستمبر 2018 کو سزائیں معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا جب کہ 14 جنوری 2019 کو نیب کی سزا معطلی کے فیصلے کے خلاف اپیل پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، جسٹس مشیر عالم، جسٹس مظہر عالم خان اور میاں خیل پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے نیب کی اپیلوں کو خارج کردیا۔
دوسری جانب 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں دوبارہ نوازشریف کو10سال قید کی سزا سنائی گئی جس کے بعد نواز شریف کو جیل منتقل کردیا گیا، فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کو مقدمہ سے بری کردیا گیا، 31اکتوبر 2019کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے العزیزیہ ریفرنس میں میڈیکل گراؤنڈ پر نواز شریف کی دونوں کیسز میں سزائیں معطل کر کے بیرون ملک علاج کی اجازت دی اور ساتھ فیصلے میں لکھ دیا کہ اگر نوازشریف کی صحت بہتر نہ ہو تو فوجداری قانون کی دفعہ 401 کے تحت درخواست گزار یعنی نواز شریف پنجاب حکومت سے ضمانت میں توسیع کروا سکتے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ سے سزائیں معطل ہونے کے بعد نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے لاہورہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا، جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے میڈیکل گراؤنڈ پر 16نومبر2019کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست منظور کی اور انہیں بیرون ملک علاج کی اجازت دیدی اور اس حوالے سے ان کے بھائی شہباز شریف نے عدالت میں اشٹام پیپر پر گارنٹی دی۔
نومبر 2019 کو نوازشریف لندن پہنچ گئے اور اس دوران صرف ایک مرتبہ لاہور ہائیکورٹ میں نواز شریف کا کیس 20 جنوری 2020 کو جسٹس طارق عباسی اور جسٹس چوہدری مشتاق پر مشتمل بینچ کے روبرو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر ہوا تو ایک ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور دو ڈپٹی اٹارنی جنرل جس میں ایک ڈپٹی اٹارنی جنرل اس وقت بھی موجود ہیں اسد باجوہ سمیت دیگر نوازشریف کے خلاف پیش ہوئے لیکن عدالت کے سوالات کے جوابات نہ دے سکے اور مزید مہلت مانگ لی جس کے بعد عدالت نے کیس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا۔
اس دوران تحریک انصاف کی حکومت نواز شریف کو مفرور تو قرار دیتی رہی لیکن نواز شریف کی ضمانت خارج کروانے کے لیے کوئی درخواست عدالت میں دائر نہیں کی جبکہ دوسری جانب 4 ہفتوں بعد نواز شریف جب وطن واپس نہ آئے تو اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدم پیروی کی بنیاد پر نواز شریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف دونوں اپیلیں خارج کردیں اور نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا اور فیصلے میں کہا کہ نوازشریف واپس آئیں تو اپیلیں بحال کرنے کی درخواست دے سکتے ہیں جس کے بعد نواز شریف 21 اکتوبر 2023 کو ملک واپس پہنچے تو اپیلیں بحال کرنے کی درخواستیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروادی گئیں۔
العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کی درخواست پنجاب حکومت کو دی جس کے بعد نواز شریف کی سزا فوجداری قانون کی دفعہ 401 کے تحت سزا معطل کردی اور یوں نواز شریف کی گرفتاری کا خطرہ ٹل گیا جبکہ نااہلی کی تلوار اس وقت تک لٹکتی رہے گی جب تک اسلام آباد ہائیکورٹ نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کے خلاف اپیلوں کا فیصلہ ان کے حق میں نہیں کر دیتی۔