لاہور: (دنیا نیوز) نگران پنجاب حکومت نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا معطل کر دی۔
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے پنجاب حکومت کو سزا معطل کرنے کی درخواست کی تھی، سابق وزیراعظم نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں سزا معطل کرنے کی درخواست دی تھی۔
نگران پنجاب کابینہ نے قائد مسلم لیگ ن نوازشریف کی سزا معطل کرنے کی منظوری دی۔
واضح رہے کہ کریمنل پروسیجرل کوڈ سیکشن 401 کے تحت حکومت مجرم کی سزا معطل کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
سزا معطلی کی تفصیلات سامنے آ گئیں
نوازشریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا کیسے معطل ہوئی دنیا نیوز نے تفصیلات حاصل کر لیں۔
قائد مسلم لیگ ن کی جانب سے نگران پنجاب کابینہ کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کی درخواست دی گئی تھی۔
نگران پنجاب کابینہ نے نواز شریف کی درخواست پر ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت کی، وڈیو لنک پر نواز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز نے دلائل دیئے، نگران پنجاب کابینہ کے ہمراہ چیف سیکرٹری پنجاب بھی موجود تھے۔
پنجاب کابینہ نے نواز شریف کے وکلا کی درخواست متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے سزا معطل کر دی۔
یاد رہے کہ نواز شریف کو 6 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی، عدالت نے 19 ستمبر 2018 کو میرٹ پر سزائیں معطل کر کے تمام کو رہا کر دیا تھا، 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی، 31 اکتوبر 2019 کو میڈیکل گراؤنڈ پر نواز شریف کی سزا معطل کر دی تھی۔
نوازشریف کی سزا معطلی کا فیصلہ کابینہ نے لیگل ایڈوائس کے تحت کیا،اشتراوصاف
اس حوالے سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا ہے کہ اس معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں رجوع کیا گیا تھا، سابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس ججمنٹ کو آفر کیا تھا، یہ فیصلہ کابینہ نے سوچ سمجھ کر لیگل ایڈوائس کے تحت کیا، اس فیصلے پر کوئی کیسے معترض ہوسکتا ہے۔
اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ نواز شریف کیخلاف کیسز اجلت میں بنائے گئے، قانونی پیچیدگیاں ہوتی نہیں بنا دی جاتی ہیں، گزشتہ دور میں شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سعد رفیق کے معاملات تھے، پچھلے دور کے کیسز کی ایک لمبی لسٹ ہے، پیچیدگیاں قانون میں نہیں پروسیجر میں تھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے کیسز میں تاریخیں نہیں لگتی تھیں، اگر لگتی تھیں تو جج چھٹی پر چلے جاتے تھے، یہ کچھ ایسے سلسلے تھے جن کی وجہ سے ان کو بہت دیر تک پابند سلاسل رکھا گیا۔