مظفرآباد: ( محمد اسلم میر سے ) آزاد جموں و کشمیر کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار 29 وزرا کو حلف اٹھانے کے چار ماہ بعد وزارتوں کے قلمدان سونپ دیے گئے ہیں۔
منگل کی رات وزرا کو محکمے جاری کئے گئے، وزیرا عظم چوہدری انوار الحق کے اس فیصلے سے واضح ہو رہا ہے کہ وہ اتحادیوں کے بجائے پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ارکان اسمبلی پر ہی بھروسہ کر رہے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ اہم وزارتوں میں سے دو کو چھوڑ کر باقی سب فارورڈ بلاک کے وزراء کو دی گئی ہیں۔
آزاد جموں و کشمیر میں قائم مخلوط حکومت میں شامل مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے وزرا محکموں کے قلمدان پر ناخوش ہیں، پاکستان پیپلزپارٹی کے سیکرٹری اطلاعات اور وزیر جاوید ایوب نے اپنے دفتر کو تالے لگوا دیئے، وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کے اس فیصلے کے بعد مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کے پاس اب دو ہی راستے بچے ہیں جن میں سے ایک یا تو حکومت کے ساتھ ان ہی وزارتوں پر اکتفا کر کے رہنا ہو گا یا پھر اپوزیشن کے بنچوں پر دوبارہ واپس بیٹھنے کو تر جیع دینی ہو گی۔
آزاد جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتیں بالعموم اور پیپلزپارٹی و مسلم لیگ نواز بالخصوص لاڑکانہ اور رائیونڈ سے ہٹ کر خود سے کوئی سیاسی فیصلہ نہیں کر سکتیں، وزراء کے قلمدان چار ماہ کی تاخیر سے جاری کرنے میں وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کی سیاسی چال چھپی تھی جس میں وہ اب تک کامیاب ہو گئے ہیں، وزیر اعظم اپنی حکومت کو مستقبل میں مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کے بغیر چلانے کے لئے اب تک کامیاب دکھائی دے رہے ہیں۔
وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے کمال مہارت سے فاروڈ بلاک کے ارکان کو دوبارہ نہ صرف پرانی وزارتوں پر بحال کیا بلکہ ان ہی کی طاقت کو وہ مستقبل میں نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کے لئے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے وزرا میں شامل اراکین میں فیصل راٹھور لوکل گورنمنٹ، جاوید بڈھانوی بحالیات، عامر عبد الغفار لون ماحولیات، جاوید ایوب زکوٰۃ و عشر، میاں عبدالوحید قانون و انصاف، قاسم مجید منگلا ڈیم ہاؤسنگ اتھارٹی، عامر یاسین ایس ڈی ایم اے و شہری دفاع ، ضیا القمر آئی ٹی اور بازل نقوی کو ترقی نسواں و دیگر محکمے دیئے گے ہیں۔
مسلم لیگ نواز کے رکن قانون ساز اسمبلی کرنل ریٹائرڈ وقار نور کو محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن، راجہ محمد صدیق کو صنعت و کامرس، لیبر ویلفیئر اوزان و پیمائش، احمد رضا قادری کو وزارت مذہبی امور و اوقاف اور سردار عامر الطاف کو ٹیوٹا کے قلمدان سونپے گئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے منحرف اور فارورڈ بلاک کے ارکان محمد حسین بہبود آبادی و آبپاشی، سردار میر اکبر زراعت و لائیو سٹاک، دیوان چغتائی ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن، ارشد حسین توانائی، چوہدری رشید پاور ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن ، عبدالماجد خان خزانہ و امداد باہمی، چوہدری محمد اکبر خوراک، اظہر صادق مواصلات و تعمیرات عامہ، نثار انصر صحت عامہ، چوہدری اخلاق ریونیو و کسٹوڈین ، اکمل سرگالہ جنگلات، ظفر اقبال ملک ہائیر ایجوکیشن، فہیم ربانی آثار قدیمہ و سیاحت، یاسر سلطان فزیکل پلاننگ و ہاؤسنگ، جاوید بٹ ٹرانسپورٹ اور عاصم بٹ کو سپورٹس یوتھ اینڈ کلچر کا قلمدان دیا گیا ہے۔
دوسری جانب وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے ان لینڈ ریونیو، کشمیر بنک، اطلاعات، منصوبہ بندی و ترقیات اور ترقیاتی اداروں کی وزارتوں کے قلمدان اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر انوارالحق نے 20 اپریل کو عہدے کا حلف اٹھایا تھا کابینہ اراکین کی تعداد بڑھانے کیلئے 15 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے 29 اراکین اسمبلی کو کابینہ میں شامل کیا گیا۔
آزاد جموں و کشمیر کی سیاست میں وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کی سیاسی بصیرت، برداشت اور معاملہ فہمی کا اصل امتحان اب شروع ہو گیا ہے، کیا وزیر اعظم فارورڈ بلاک اور اتحادیوں کو ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوں گے اگر کسی موڑ پر اتحادی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی نے منہ موڑ لیا تو کیا وہ فارورڈ بلاک کو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوں گے؟
آثار و قرائن بتا رہے ہیں کہ اگر وزیر اعظم فارورڈ بلاک اور پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ارکان اسمبلی سمیت اپوزیشن کے تین اہم رہنما اپوزیشن لیڈر خواجہ فاروق، رفیق نیئر اور سردار عبد القیوم خان نیازی کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئے تو اقتدار کے باقی ماندہ سال سکون سے گزر جائیں گے۔
دوسری جانب رکن قانون ساز اسمبلی اور سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس خان کی قریبی عزیزہ محترمہ شاہدہ صغیر کے فرزند احمد صغیر بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کے بہت قریب ہوتے جا رہے تھے اور بدھ کے روز احمد صغیر کو حکومتی مشیر بھی تعینات کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم کے اس فیصلے کے بعد رکن قانون ساز اسمبلی محترمہ شاہدہ صغیر بھی غیر اعلانیہ طور پر فارورڈ بلاک کا حصہ بن گئی ہیں، وزیر اعظم نے مسلم لیگ ن کی رکن اسمبلی نثاراں عباسی کو مشیر حکومت جبکہ پیپلزپارٹی کی نبیلہ ایوب کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی منحرف رکن اسمبلی صبیحہ صدیق کو بھی معاون خصوصی مقرر کر دیا ہے۔
یوں 53 ارکان اسمبلی کے ایوان میں وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کے پاس سادہ اکثریت آجائے گی اور انہیں اقتدار سے باہر نکالنا مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی کے لئے مشکل ہو گا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ فارورڈ بلاک کو تگڑی وزارتیں دینے کے بعد ظاہری طور پر وزیر اعظم کی پوزیشن مضبوط ہو گی اور وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس کی وجہ سے ان کے اتحادی ان سے دور ہو جائیں، وزیر اعظم نے مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی کو چند وزارتوں کے علاوہ چھوٹے قلمدان سونپ کر انہیں یہ واضع پیغام دیا کہ وہ آج بھی پی ٹی آئی کے منحرف ارکان اور فارورڈ بلاک کو ان پر ترجیح اول دیتے ہیں۔
وزارت اطلاعات کا قلمدان وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے اپنے پاس رکھ کر دراصل میڈیا اور حکومت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے والے عناصر کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا اور وہ کسی کو یہ موقع نہیں دینا چاہتے ہیں کہ پریس کو ان کی حکومت کے خلاف استعمال کیا جائے۔
ادھر آزاد جموں و کشمیر کونسل کے ممبران خواجہ طارق سعید، محمد حنیف ملک، شجاع خورشید راٹھور اور سردار عدنان نے مشترکہ طور پر وفاقی حکومت سے اپیل کی کہ وہ کشمیر کونسل سیکرٹریٹ اسلام آباد میں ڈپیوٹیشن پر تعینات سرکاری ملازمین کو ان کے آبائی محکموں میں واپس بھیج دیں۔
ممبران کشمیر کونسل نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر کے وسائل کو کونسل کے سیکرٹریٹ ملازین کے ذریعے کسی صورت شیر مادر کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، آزاد کشمیر کے ٹیکس کی مد میں آمدن کو کشمیر کونسل بیورکریسی اللے تللے پر ضائع کر رہی ہے، کافی عرصہ سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وزارت امور کشمیر کے افسران نے وزیراعظم پاکستان کو لاعلم رکھ کر محکمہ حسابات آزاد کشمیر کو فنڈز مانگنے کے لئے خطوط لکھے جس سے آزاد جموں و کشمیر اور وفاق کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
ان کے مطابق بہتر ہے کہ کشمیر کونسل میں ڈیپوٹیشن پر تعینات ملازمین کو فوری طور پر اپنے اپنے محکمہ جات میں واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا جائے اور کونسل میں تعینات عارضی ملازمین کے مسائل کو وزیراعظم آزاد کشمیر کے نوٹس میں لایا جائے تاکہ انکو مستقل کیا جاسکے، کشمیر کونسل دراصل حکومت آزاد جموں و کشمیر اور وفاقی حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کرتی ہے اور اس کردار کو مزید مضبوط نہ کر کے کمزور کرنے کی ضرورت ہے۔