لاہور: (میاں عمران احمد) مالی سال 25-2024ء کے بجٹ کے حوالے سے سرکار کا دعویٰ ہے کہ یہ تاریخ کا بہترین بجٹ ہے لیکن اپوزیشن اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دے رہی ہے، دونوں میں سے کون صحیح ہے اور کون غلط‘ اس کا درست اندازہ چند ماہ بعد ہی ہو سکے گا۔
خسارہ کتنا ہے‘ زرِمبادلہ کے ذخائر کتنے ہیں‘ بیرونی سرمایہ کاری کتنی ہے‘ قرض کتنا ملے گا اور کتنا سود ادا کرنا ہے؟ عوام کی ان اعداد و شمار میں دلچسپی نہیں‘ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کی آمدن اور اخراجات میں توازن برقرار ہو سکے گا یا نہیں، اگر عوام کو یہ توازن حاصل نہیں ہو پاتا تو ان کے نزدیک بجٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی، بجٹ کا حجم 18 ہزار 877 ارب روپے ہے، یہ آئندہ مالی سال کا پہلا بجٹ ہے‘ اس کے بعد منی بجٹس بھی آ سکتے ہیں۔
بجٹ کے اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ نیا مالی سال عوام پر کافی بھاری ہو سکتا ہے کیونکہ ملکی آمدن اٹھنی اور خرچہ روپے سے بھی زیادہ ہے، ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 12970 ارب روپے رکھا گیا ہے جو رواں سال کی نسبت 38 فیصد زیادہ ہے، نئے بجٹ میں گزشتہ مالی سال کی نسبت تقریباً تین ہزار ارب روپے سے زیادہ ٹیکسز لگائے گئے ہیں۔
اس مرتبہ بھی سرکار نے ٹیکس اکٹھا کرنے کے آسان طریقوں پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ جو سرکار کے لیے تو آسان ہیں لیکن عوام کے لیے ان کے نتائج اچھے نہیں، زیرو ریٹڈ اشیاء سمیت سبھی اشیا پر سیلز ٹیکس چھوٹ کو ختم کر دیا گیا ہے، سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا مطلب سیلز ٹیکس لاگو کرنا ہوتا ہے، پیکٹ دودھ پر بھی سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے، عمومی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ غریب آدمی پیکٹ دودھ نہیں خریدتا‘ اس لیے پیکٹ دودھ کی قیمت بڑھنے سے غریب انسان متاثر نہیں ہوتا، یہ تاثر غلط ہے۔ ملک میں گوالے کے دودھ کی قیمت پیکٹ دودھ یا خشک دودھ کی مناسبت سے طے کی جاتی ہے۔
اگر پیکٹ دودھ یا خشک دودھ کی قیمت بڑھے گی تو کھلا دودھ بھی مہنگا ہوگا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جو افراد ہر سال لاکھوں‘ کروڑوں روپے منافع کماتے ہیں اور ٹیکس نہیں دیتے‘ انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جاتا اور غریب افراد کو اضافی سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جاتا، غریب کو ریلیف دینے کے لیے راشن کارڈ سکیم بھی جاری کی جا سکتی تھی تاکہ غریب آدمی اضافی سیلز ٹیکس سے بچ سکے۔
پچھلے ماہ مہنگائی کی شرح میں کمی آئی ہے، آٹا‘ دالوں‘ چاول کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، اگر یہ بجٹ اسی طرح بغیر رد و بدل کے منظور ہوگیا تو جولائی میں انہی اشیا کی قیمتیں دوبارہ آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی جبکہ سرکار کی جانب سے بجٹ میں مہنگائی میں کمی لانے کا یقین دلایا جا رہا ہے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی تقریباً 48 فیصد سے کم ہو کر 11.8 فیصد پر آگئی ہے‘ یہ کمی تقریباً چار سو فیصد بنتی ہے‘ جبکہ اشیائے خورونوش کی قیمتیں صرف دس سے تیس فیصد تک کم ہوئی ہیں۔
اعداد و شمارکے اس گورکھ دھندے نے عوام کو پریشان کر رکھا ہے، شاید بجٹ سے پہلے مثبت اعداد و شمار ظاہر کر کے سیاسی فائدہ سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے، بجٹ کے مطابق جولائی سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو جائے گا ممکنہ طور پر بجٹ منظوری کے بعد پٹرولیم لیوی میں تقریباً 20 روپے فی لٹر مزید اضافہ ہونے والا ہے، صنعتی شعبہ پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے۔
رواں مالی سال توانائی کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے شرح نمو 2.38 فیصد رہی جو کہ طے شدہ حکومتی ہدف 3.5 فیصد سے کم ہے، نئے مالی سال کے لیے یہ ہدف 3.6 فیصد رکھا گیا ہے، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد صنعتی ترقی سے یہ ہدف حاصل ہونا مشکل ہے، شاید حکومت زرعی شعبہ پر انحصار کر رہی ہے، رواں مالی سال کے جی ڈی پی میں بھی بڑا حصہ زرعی شعبے کا ہے، اس کے علاوہ لائیو سٹاک کے شعبے میں ترقی کی شرح 3.89فیصد رہی۔
نئے مالی سال میں طے شدہ جی ڈی پی ہدف حاصل کرنے کے لیے زرعی شعبے پر اسی صورت انحصار کیا جا سکتا ہے جب بجلی اور تیل کی قیمتیں کم ہوں گی، بجٹ میں حکومت کا سارا زور زیادہ سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے پر نظر آتا ہے جبکہ اصل مدعا یہ ہونا چاہیے کہ جی ڈی پی کو کس طرح بڑھایا جائے، بیرونی سرمایہ کاری کیسے لائی جائے، ملک کو کاروبار اور سرمایہ کاری نے چلانا ہے۔
موجودہ ٹیکس دہندگان پر ٹیکس ایک حد تک لگایا جا سکتا ہے، انڈسٹری پر تقریباً 35 فیصد انکم اور 10 فیصد سپر ٹیکس عائد ہے، دیگر ٹیکسز ملا کر یہ شرح 50 فیصد سے اوپر چلی جاتی ہے، جب کمپنیوں کو منافع پر 50 فیصد ٹیکس دینا پڑے گا تو وہ پاکستان میں کیوں ٹھہریں گی؟ بیرونی سرمایہ کاری پچاس سال کی کم ترین سطح پر آنے کی بڑی وجہ ٹیکسوں کی بھرمار ہی ہے، اس وقت دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں کارپوریٹ انکم پر 50 فیصد ٹیکس ہو۔
جو لوگ کمپنیاں بنائے بغیر کاروبار کر رہے ہیں یا کوئی سروس دے رہے ہیں ان کی آمدن پر بھی ٹیکس لگایا گیا ہے لیکن ان کی آمدن پر ٹیکس ریٹ بڑھانے کا فائدہ نہیں کیونکہ ان کی آمدن کا حساب رکھنے کے لیے سرکار کے پاس کوئی نظام نہیں ہے، زیادہ بہتر سٹریٹجی یہ ہوتی کہ ان افراد کے اکاؤنٹس سسٹم کو ایف بی آر سے منسلک کیا جاتا، پی او ایس کے تحت ان کو سسٹم میں لایا جائے اور پھر ٹیکس لگایا جائے۔
ترقیاتی بجٹ میں بھی ریکارڈ اضافہ کیا گیا ہے، وفاقی ترقیاتی بجٹ 550 ارب روپے اضافے کے ساتھ 1500 ارب روپے رکھا گیا ہے، یہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ ہے، ترقیاتی بجٹ کے نام پر ملکی وسائل کا بے دریغ استعمال مناسب نہیں، حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ غریب دوست بجٹ ہے، اس بجٹ کو غریب دوست اسی وقت کہا جا سکتا تھا جب حکومت ترقیاتی بجٹ کو کم کر کے ٹیکس کم کرتی اور غریب آدمی کو اس کا فائدہ پہنچاتی، قرض لے کر ملک کا سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ پیش کرنا مناسب نہیں ہے۔
معاشی مشکلات کے باوجود آئندہ مالی سال میں بھی پارلیمنٹرینز کی ترقیاتی سکیمیں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لیے 75 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ ابھی تک پچھلے سال کا ترقیاتی بجٹ ہی پورا استعمال نہیں ہوا ہے، یہ وقت سیاسی ایلیٹ کو نوازنے کے بجائے ملک کے بنیادی مسائل حل کرنے کا ہے۔
بجٹ میں نان فائلرز کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوئی موثر پالیسی نہیں ہے، رواں مالی سال میں سرکار نے نان فائلرز کے بینک اکاؤنٹ سے 50 ہزار سے زیادہ کیش نکلوانے کی مد میں تقریباً دس ارب روپے ایڈوانس ٹیکس وصول کیا ہے، نئے بجٹ میں اس ٹیکس میں اضافہ نہیں کیا گیا جو خوش آئند ہے، ٹیکس لگانے کا مقصد نان فائلرز کو فائلرز بنانا ہونا چاہیے نا کہ ان پر مالی بوجھ ڈالنا، سرکار کے پاس نان فائلرز کا مکمل ڈیٹا موجود ہے، ایسا لائحہ عمل طے کیا جانا چاہیے کہ ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہو۔ ٹیکس بیس بڑھے گی تو ٹیکس آمدن میں اضافہ ہو گا اور ٹیکس ریٹ بھی کم ہوگا۔
رئیل سٹیٹ اور کیپٹل مارکیٹ میں نان فائلرز پر ٹیکس45 فیصد تک لگایا گیا ہے، اس سے بھی ٹیکس آمدن میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے دیگر آپشنز پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے، سرکاری ملازمین اس اضافے سے خوش دکھائی نہیں دیتے۔ پچھلے سال مہنگائی تقریباً 48 فیصد تک گئی جس کی وجہ سے عوام کی قوتِ خرید بری طرح متاثر ہوئی، سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں میں کم از کم تیس فیصد اضافے کی توقع لگائے بیٹھے تھے۔
سرکار کا یہ فیصلہ درست ہے یا نہیں‘ اس کا اندازہ سال کے آخر میں ہو گا، اگر مہنگائی سنگل ڈیجٹ میں آجاتی ہے اور حکومت اگلے بارہ ماہ اسے کم رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو تنخواہوں میں یہ اضافہ مناسب ہے، بصورت دیگر سرکاری ملازمین بھی بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں، اسی طرح کم سے کم تنخواہ 37 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، اصلاحات لانا وقت کی اہم ضرورت ہے، پنشن کا بجٹ صحت اور تعلیم کے بجٹ سے کہیں زیادہ ہے۔
بجٹ میں پاکستان سافٹ وئیر ایکسپورٹ بورڈ کے لیے دو ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، سافٹ وئیر ایکسپورٹ بورڈ کا مطالبہ تھا کہ ان کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے، اس کے ساتھ ان کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ یہ رقم نجی کمپنیوں کو دی جائے تا کہ وہ اپنی سٹریٹیجی کے مطابق پراجیکٹس پر خرچ کر سکیں، اس تجویز پر کس حد تک عمل ہوتا ہے‘ اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
بجٹ میں برآمدات کے تحت وصول ہونے والی رقم پر ایک فیصد فائنل ٹیکس کے ساتھ منافع پر 35 فیصد تک ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے، اس فیصلے سے برآمدات متاثر ہو سکتی ہیں، جہاں تک بات ہے گوشواروں کی وہ تو پہلے بھی جمع کروائے جاتے تھے لیکن منافع پر ٹیکس نہیں لیا جاتا تھا، اس نظام کے تحت شاید ایف بی آر کو مطلوبہ ٹیکس آمدن حاصل نہ ہو سکے۔
کسی بھی منافع کا حساب اس کے کھاتوں سے لگایا جاتا ہے، وکلا کھاتوں کو نفع سے نقصان میں تبدیل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، جو ٹیکس پہلے بآسانی بینکس کاٹ کر ایف بی آر کو جمع کروا دیتے تھے اب وہ ٹیکس آسانی سے حاصل کرنا مشکل ہے، جو ٹیکس ای ٹرانزیکشن سے حاصل ہو جاتا تھا اب اس کے حصول کے لیے ایف بی آر کے پیچیدہ نظام کا سہارا لینا پڑے گا جس میں کئی سال بھی لگ سکتے ہیں۔
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ فیصلہ حکومت کو جلد ہی تبدیل کرنا پڑ سکتا ہے، بجٹ میں سٹیل اور لوہے کے سکریپ پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے، ایسا کیوں کیا گیا ہے اور اس سے ملک کو یا کسی صنعت کو کیا فائدہ ہوگا‘ اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا، کنسٹرکشن مٹیریل پر سیلز ٹیکس ختم کیا جاتا تو سمجھ میں بھی آتا کہ کنسٹرکشن انڈسٹری کو فائدہ ہوگا، اس معاملے کی تحقیق ضروری ہے۔
بجٹ میں مقامی سطح پر تیار کی گئی گاڑیوں پر ان کے انجن کے حساب سے ٹیکس لگانے کے بجائے ان کی قیمت کے حساب سے ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے، یہ اپروچ بہتر اور پریکٹیکل ہے، اس سے ٹیکس آمدن بڑھنے کی امید ہے، اس کے علاوہ 50 ہزار ڈالر سے زیادہ مالیت کی الیکٹرک گاڑیوں پر ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی ہے اور ہائبرڈ گاڑیوں پر بھی ٹیکس چھوٹ کم کی گئی ہے، اس سے مقامی صنعت کو فروغ مل سکتا ہے۔