لاہور: راوی کنارے بستیوں کے سرکاری سکول عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل

Published On 31 August,2025 10:28 am

لاہور: (ویب ڈیسک) دریائے راوی کے اطراف کی بستیوں میں واقع سرکاری سکولوں کو سیلاب زدہ علاقوں سے بے گھر ہونے والے خاندانوں کے لیے عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

جماعتی کمروں کے اندر بلیک بورڈ اور بنچوں کی جگہ گدے، کپڑوں کے بنڈل اور برتن رکھے ہیں، یہ وہ مختصر سامان ہے جو لوگ پانی کے گھروں اور کھیتوں کو نگل جانے سے پہلے بچانے میں کامیاب ہوئے۔

بھاری مون سون بارشوں اور بھارت کی طرف سے آنے والے بڑے پانی کے ریلوں نے دریائے راوی کو پھیلا دیا ہے، جس نے درجنوں کنارے کی بستیوں کو ڈبو دیا ہے، ہزاروں دیہاتی، جن میں زیادہ تر دہاڑی دار مزدور اور چھوٹے کاشتکار تھے، اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔

حکومت کے قائم کردہ سکولوں میں امدادی کیمپ پناہ گاہ بننے تھے مگر حالات کٹھن ہیں، خاندان صاف پانی کی کمی، ناقص صفائی ستھرائی اور ناکافی سامان کی شکایت کرتے ہیں، حکام کا دعویٰ ہے کہ طبی ٹیمیں موجود ہیں تاہم والدین کے مطابق بچوں کو غیر صحت بخش حالات کی وجہ سے خارش اور بخار ہو رہا ہے، خواتین بالخصوص ٹوٹے پھوٹے یا گندے بیت الخلا پر نالاں ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لاہور کے سکولوں میں 18 امدادی کیمپ قائم ہیں، جن میں کم از کم 4 ہزار 150 افراد مقیم ہیں، اس وقت ساندا، بابو صابو، گلشنِ راوی اور شیرکوٹ کے 5 کیمپوں میں 900 افراد، تحصیل رائیونڈ کے علاقوں منگا ہتھر اور محلنوال کے 3 کیمپوں میں 2 ہزار 350 افراد، تحصیل راوی کے علاقوں شاہدرہ، جیا موسیٰ اور ہربو جبو میں 800 افراد ہیں جبکہ تحصیل علامہ اقبال ٹاؤن کے علاقوں چوہنگ، شاہ پور، نیاز بیگ اور مریدوال میں 100 افراد مقیم ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ واہگہ تحصیل کے سکول میں قائم کیے گئے کیمپ میں ابھی تک کوئی خاندان منتقل نہیں ہوا۔

حکام کا کہنا ہے کہ اب تک 26 ہزار 65 افراد اور 3 ہزار 222 جانوروں کو سیلاب زدہ علاقوں سے نکالا جا چکا ہے، مزید 65 سکولوں کو ضرورت پڑنے پر امدادی کیمپ کے طور پر شناخت کیا جاچکا ہے۔

ماحولیاتی ماہرین زور دیتے ہیں کہ یہ بحران محض وقتی امداد سے نہیں سنبھل سکتا، وہ دریا کے کناروں پر فلڈ پروٹیکشن، مؤثر وارننگ سسٹم اور نازک بستیوں کی منتقلی کے پروگرام میں سرمایہ کاری پر زور دیتے ہیں۔