ہیپا ٹائٹس کا 4488 برس پرانا وائرس

Last Updated On 28 May,2018 06:25 pm

لاہور: (دنیا نیوز) اب تک سائنسدان اور طبی ماہرین ہیپاٹائٹس کو ساڑھے چار سو برس پرانا مرض سمجھتے تھے۔ اس مرض کے جراثیم ساڑھے چار سو سال پرانے ڈھانچوں میں پائے گئے تھے۔ تاہم مئی کے دوسرے ہفتے میں برطانوی جریدے نے انکشاف کیا کہ کروڑوں انسانوں کو بیمار کرنے والا ہیپا ٹائٹس بی کا وائرس ساڑھے چار ہزار برس قبل کانسی کے زمانے میں بھی بنی نوع آدم کی موت کا سبب بنتا رہا۔

جرمنی کے علاقے اوسٹر ہوفن میں ملنے والے ان ڈھانچوں کی مجموعی عمر 4488 برس ہے۔ تاہم یہ ڈھانچے 200 سے 7ہزار برس قدیم تھے۔ مغربی اور مرکزی یور و ایشیاء میں 304 ڈھانچوں پر تحقیق کے نتیجے میں 25 ڈھانچوں میں ہیپاٹائٹس کا وائرس ملا ہے۔ شاید یہ کانسی کے زمانے میں پوری شدت کے ساتھ پھیلا ہوگا تبھی تو کم و بیش 8فیصد لوگ اس مرض کا شکار ہوئے تھے۔ ان میں سے 25 ڈھانچوں میں اس وائرس کے جینیاتی کوڈ کی تفصیلات معلوم کرنا ممکن ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کی مشترکہ ٹیم کے رکن ڈاکٹر ٹیری جونز نے انکشاف کیا ہے کہ عمومی طور پر سائنسدان ہیپا ٹائٹس بی کے جدید وائرس پر ہی تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ ہمیں اس کی قدیم کڑیو ں کا علم ہی نہ تھا۔ ماضی میں اس وائرس کے جینز کا پتہ چلا کر آج دور حاضر میں اس کے علاج کو آسان بنایا جاسکتا ہے۔ ہم تو فوسلز کے بغیر ہی ارتقاء پر تحقیق کر رہے تھے۔ اب پہلی مرتبہ مختلف وائرس اور ارتقاء پر تحقیق کے لیے جینیاتی کوڈ کو استعمال کیا جائے گا۔ دور حاضر میں حیوانات پر تحقیق سے ان کے ارتقاء کی غیر واضح سی تصویر ابھرتی ہے ،ہم حقیقت تک نہیں پہنچ پاتے۔ ایسا ہی مختلف اقسام کے وائرس کے ساتھ بھی ہوا۔ ہم وائرس کی جینز کا سراغ لگانے میں ناکام رہے۔ مگر اب ایسا نہیں ہوگا‘‘۔

ان کی تحقیق نیچر نامی جریدے میں شائع ہوئی۔ جبکہ ٹیم کی ایک ساتھی کیمبرج یونیورسٹی کی باربرا مہلے من نامی پی ایچ ڈی کی طالبہ بھی ہیں۔ وہ کئی عشروں سے اس پر تحقیق کر رہی ہیں۔ اس تحقیق سے وائرس کو سمجھنے اور اس کے اثرات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ بقول سائنسدان اسے وائرس کی دنیا میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جاسکتا ہے۔
قبل ازیں وائرس کے بارے میں انسان کی آگاہی صفر تھی۔ مگر اس تحقیق سے اس کے لیے نئی تحقیق کے دروازے کھل گئے ہیں۔ 2015ء میں ہیپا ٹائٹس بی کے دائمی مرض میں 25 کروڑ 70 لاکھ افراد مبتلا تھے جبکہ صرف جگر کے سرطان سے 8 لاکھ 87 ہزار افراد نے وفات پائی۔ اب ان افراد کو بہتر علاج کی سہولت مہیا کرنا ممکن ہو گا۔

تحریر: ڈاکٹر فراز