شریر بچے، زحمت نہیں رحمت

Last Updated On 08 June,2018 09:19 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) شاید بہت سی بہنیں یہ سن کر حیران ہو جائیں گی کہ شریر بچوں کی مائیں بڑی قسمت والی مائیں ہیں کہ انہیں محض خوش بختی سے شریر بچے ملے ہیں۔ شرارت وہی بچے کرتے ہیں جن میں سوجھ بوجھ ہوتی ہے، جن کا ذہن تیز ہوتا ہے۔ ذہین بچے کبھی نہیں بیٹھ سکتے۔ ان کے ذہن کی تیزی انہیں کچھ نہ کچھ کرتے رہنے پر اکساتی رہتی ہے۔

بات یہ ہے کہ آدمی چاہے بچہ ہو یا بڑا جس دنیا میں وہ رہتا ہے، اس کی ہر چیز کا اتہ پتہ، اس کی بناوٹ، اس کی خاصیتیں، اس کے فائدے اور نقصان معلوم کر کے اپنا علم بڑھانا چاہتا ہے۔ سائنس کے تمام شعبے، ایجادات کے تمام کرشمے، فلسفے کے تمام مسئلے، تاریخ کے پورے دفتر، سب کے سب انسان کے اسی جذبے کے رہینِ منت ہیں۔ بڑا آدمی حرکت کرتا ہے، تو یہ چیز سائنس کی زبان میں ریسرچ یا تحقیق کہلاتی ہے اور چھوٹا بچہ یہی حرکت کرتا ہے، تو اس کی شرارت بن جاتی ہے۔ ذہین بچہ جب کوئی ایسی چیز دیکھتا ہے جو اس کے لیے نئی ہے، تو اس کے ذہن میں بڑی تیزی سے حرکت ہوتی ہے، وہ یہ جاننے کے لیے بے کل سا ہو جاتا ہے کہ کیا چیز ہے، کیسے بنی ہے، اس کے اندر کیا ہے، اس سے کیا کام لیا جا سکتا ہے، سب باتیں جاننے کے لیے وہ اس چیز کو الٹتا پلٹتا اور توڑتا پھوڑتا ہے۔

شریر بچے سچ مچ ایک نعمت ہیں، لیکن شریر بچوں کی تربیت اور ان کے اچھے ذہن کو اچھے کاموں کی طرف لگانا بڑا کٹھن کام ہے۔ اس کے لیے بڑی سوجھ بوجھ اور بڑے صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس کی شرارت پر الجھ کر آپ نے بچے کو دبانے کی کوشش کی، تو اس کی اُپچ یا تو ہمیشہ کے لیے دب کر ختم ہو جائے گی یا اگر دب نہ سکی، تو پھر بچہ آپ کی آنکھ بچا کر اسے برے کاموں میں لگانے پر مجبور ہو جائے گا۔

تحریر: مبارزالدین رفعتؔ