9 ہزار سال پہلے مرنے والے انسان کا چہرہ بن گیا

Last Updated On 06 January,2019 07:22 pm

لاہور: (دنیا میگزین) آثار قدیمہ پر تحقیق ہمیشہ سے ہی انسان کے لیے دلچسپی کا باعث رہی ہے۔ انسان کب اس دنیا میں آیا؟ یہ تو صرف رب کریم کو ہی معلوم ہے۔ کہاں نسلیں پروان چڑھنا شروع ہوئیں؟ اور کس طرح ترقی کی منزلیں طے کیں؟ کب اور کتنی مرتبہ انسانی تہذیب برباد ہوئی؟

 

اس بارے میں بھی سائنسدان اور محققین ٹھیک ٹھیک نہیں جانتے۔ وہ سب اندھیرے میں ہیں۔ یہ اور ایسے کئی دوسرے سماجی موضوعات پر سائنسدان بہت کچھ جاننا چاہتے ہیں۔ انہیں اپنے آباؤ اجداد کے رہن سہن کی تلاش ہے۔ جیسا کہ دوران تحقیق بھارت میں درختوں سے بنائی گئی کئی سو میل لمبی ایک ”دیوار“ مل گئی جسے دنیا کی تاریخ کی انوکھی دیوار کہا جا سکتا ہے۔

اسی کوشش میں سائنس دانوں نے 9 ہزار سال پہلے مرنے والے انسان کا چہرہ بنا لیا ہے۔ وہ اپنے آباﺅ اجداد کے نقوش کا پتہ چلانے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں بالخصوص امریکیوں کو آباﺅ اجداد کی تلاش ہے۔

چینیوں تو اپنا تعلق معروف مفکر کنفیوشس کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب رہے ہیں۔ کروڑوں چینی اپنے آپ کو فخریہ اس کی نسلوں کی اولاد سمجھتے ہیں، مگر امریکہ انہیں اپنے آباﺅ اجداد کی کوئی خبر نہیں ہے۔

چنانچہ اسی جستجو میں غیر ملکی سائنسدانوں نے ابھی حال ہی میں ایتھنز میں 9 سو سال پرانے چہرے کے خدوخال بنائے ہیں۔ ان کے پاس ایک ٹین ایجر کا ڈھانچہ موجود تھا۔ سائنس دانوں نے اس کا ناک نقشہ اس کے دانتوں کے سائز اور ہڈیوں کی ساکھ سے لگایا۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس کے دانت آگے کی جانب نکلے ہوئے تھے، شاید بہت زیادہ دبانے یا ہچکچانے کی وجہ سے اس کے جبڑے اور اس کے دانت ابھرے ہوئے تھے۔

سائنسدانوں کے تیار کردہ خدوخال کے مطابق یہ چہرہ کرخت دکھائی دیتا ہے۔ شاید اس دور کی عورت زیادہ خوش نہ ہو گی۔ اس کے چہرے پر غمی کی لہر دیکھتے ہوئے پروفیسر مانولس پاپا گری کو راکس نے مذاق میں کہا کہ اس دور میں وہ ناراض رہنے کے سوا کر بھی کیا سکتی تھی۔

اس قسم کے دور میں وہ بھلا کیسے خوش رہ سکتی تھی۔ بقول مانولس وہ خون کی کمی کا شکار ہو گی جب ہی اس کی رنگت گہری براﺅن تھی۔ گنٹھیا کی قسم کے مرض میں مبتلا ہوگی۔ سائنسدانوں نے اس کا آدھا جسم بنایا ہے، دھڑ تک تیار کرنے کے بعد وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ تھی۔ وہ شاید اسی معذوری کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی۔

(یہ تحریر دنیا میگزین میں شائع ہوئی، مکمل تحریر پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)