لاہور: (روزنامہ دنیا) دنیا کی تباہی کی پیشگوئی کرنے والی ’قیامت کی گھڑی ‘ آدھی رات سے 2 منٹ دور ہے اور اس بار اس میں کمی یا اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
ہر سال بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس نامی سائنسدانوں کے گروپ کی جانب سے اس ڈومز ڈے کلاک کے وقت کا تعین گزشتہ سال کے واقعات کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے کہ انسانیت تباہی کے کتنے نزدیک یا دور ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق گھڑی کا وقت آدھی رات سے جتنا قریب ہوگا، اتنے ہی زیادہ ہم خطرے میں ہوں گے اور اس گھڑی سے پتا چلتا ہے کہ ہم اپنی تیار کردہ ٹیکنالوجیز سے ہی خود کو تباہ کرنے کے کتنے قریب ہیں۔
بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس کی جانب سے جمعرات کو جاری بیان کے مطابق انسانیت کو 2 خطرات کا سامنا ہے۔ بیان میں بتایا گیا کہ موسمیاتی تبدیلیاں اور ایٹمی جنگ انسانی تہذیب کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے جو کہ دنیا کو قیامت کے قریب لا رہا ہے۔
گزشتہ سال یہ گھڑی تیس سیکنڈ آگے بڑھائی گئی تھی جس کے بعد یہ آدھی رات سے صرف دو منٹ دور رہ گئی۔ اس وقت بیان میں بتایا گیا تھا کہ یہ گھڑی اب قیامت کے اتنے قریب ہو گئی ہے جتنا 1953ء میں سرد جنگ کی شدت کے دوران پہنچ گئی تھی۔
گروپ کا کہنا تھا کہ جب تک عالمی رہنما اور لوگ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر لیتے، اس وقت تک تباہی سے بچنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس سے قبل یہ گھڑی 1953ء میں موجودہ عہد کے وقت تک پہنچی تھی جس کی وجہ پہلی بار ہائیڈروجن بم کی آزمائش تھی۔
قیامت کی گھڑی کو 1947ء میں بنایا گیا تھا جس کے دوران 1953ء میں یہ گھڑی آدھی رات سے دو منٹ دوری پر تھی جبکہ 1991ء میں یہ سب سے دور یعنی 17 منٹ دور کر دی گئی تھی۔
بیان کے مطابق اسی طرح موسمیاتی تبدیلیاں زیادہ بڑا فوری خطرہ نظر نہیں آتیں مگر درجہ حرارت میں اضافہ طویل المیعاد بنیادوں پر فوری توجہ کا متقاضی ہے، مگر عالمی ردعمل اس چیلنج کے حوالے سے ناکام نظر آتا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دنیا اس وقت گزشتہ سال کے مقابلے میں کم خطرے میں ہے مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان انتشار اور جوہری توازن کے حوالے سے بے حس ہوکر رہ گئے ہیں، ہم اپنا سر ریت میں دبا کر نہیں چھپ سکتے۔
سائنسدانوں نے جوہری خطرات، عالمی سطح پر سیاسی کشیدگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھ کر گھڑی کی سوئیاں آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی رہنما جوہری جنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے موثر ردعمل دینے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے صورتحال ایک سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہو چکی ہے بلکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک کی تشویشناک ترین صورتحال ہے۔