جدید ٹیکنالوجی اور بچوں کی تربیت

Published On 18 November,2022 07:04 pm

لاہور: ( روزنامہ دنیا ) والدین کو انتہائی احتیاط کے ساتھ قدم اٹھاناہوگا اور بچوں کو محبت کی زنجیر سے باندھ کر ان کی تربیت کرنا ہوگی، مختلف اشیا کے استعمال سے مثبت کے ساتھ منفی نتائج بھی نکل رہے ہیں آج ٹیکنالوجی کی تیزرفتاری ایک بڑا چیلنج ہے، جب ہم اس چیز کو سمجھ لیں گے تو بچوں کو سمجھنا اور ان کی ذہنی سطح کو جاننا آسان ہوجائے گا۔

چارسالہ بچے ’’ ٹام‘‘ کو زور کی بھوک لگی ہوئی تھی۔ کافی دیر تک اسے کھانے کوکچھ نہیں ملا۔ گھر میں ٹہلتے ٹہلتے اچانک اس کوڈریسنگ ٹیبل پر ماں کا موبائل فون نظر آیا۔ اس نے موبائل اٹھایا اور ایک مخصوص ایپ کو اوپن کیا، جہاں لذیذ چیزوں کی تصاویر تھیں۔ اس کی بھوک مزید بڑھ گئی۔ اس نے جلدی جلدی چند تصاویر کو سلیکٹ کیا اور پھر موبائل واپس اپنی جگہ پر رکھ دیا۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ گھر کی گھنٹی بجی، ماں نے باہر جاکر دیکھا تو وہ میکڈونلڈ کا ڈیلیوری بوائے تھا۔ رائیسہ نے نہ سمجھنے والی نظروں سے لڑکے کو دیکھا تو وہ بولا: ’’میڈم آپ کا آرڈر‘‘۔۔۔۔۔’’لیکن میں نے تو کوئی آرڈر نہیں دیا‘‘ رائیسہ نے جواب دیا۔ ’’آرڈر آپ ہی کے نمبر اور لوکیشن سے آیا ہے، آپ چیک کریں‘‘۔ رائیسہ نے اپنا موبائل دیکھا تو اس کو حیرت کا جھٹکا لگا۔ آرڈو واقعی اس کے نمبر سے کیا گیا تھا اور آرڈر بھی معمولی نہیں بلکہ کافی بھاری بھر کم، یعنی 400 ڈالر کا۔ رائیسہ صورت حال کو سمجھ گئی، اس نے ڈیلیوری بوائے کا شکریہ ادا کیا اور اندر لاکر پیکنگ کھولی تو اس میں مختلف قسم کے برگرز، فرنچ فرائز، ملک شیک، جوس اور کیچپ کے کچھ اضافی پیکٹ بھی تھے۔

دراصل ٹام نے کئی بار اپنی ماں کو آن لائن کھانا آرڈر کرتے ہوئے دیکھا تھا اور یہ چیز اس کے ذہن میں محفوظ ہوگئی تھی۔ اب جب اس کو بھوک لگی، کھانے کو کوئی چیز نہیں تھی اور ماں بھی گھر میں مصروف تھی تو اس نے یہ طریقہ اختیار کیا اور کچھ ہی دیر میں کھانے کی کافی ساری چیزیں گھر پہنچ گئیں۔ رائیسہ نے اضافی چیزیں ضائع ہونے سے بچانے کے لیے اپنے پڑوسیوں میں تقسیم کیں اور ہنستے ہوئے انھیں اپنے بیٹے کا ’’کارنامہ‘‘ بھی بتاتی رہی۔

آج کل کے دور میں کوئی گھر ایسا نہیں جو ٹیکنالوجی کے آلات سے خالی ہو۔ ہم چاروں طرف سے ان آلات میں گھرے ہوئے ہیں اور ایسے کئی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں بچوں نے کم عمری کے باوجود ٹیکنالوجی کا استعمال کیا او ر بڑی دلچسپ صورت حال بنی۔ مثبت استعمال یا اتفا ق کی حد تک تو یہ چیز ٹھیک ہے لیکن دوسرے پہلو سے اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو اس کے بڑے منفی نتائج بھی نکل رہے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی ہماری زندگی میں شامل ہوچکی ہے اور اس کی وجہ سے ایک طرف اگر ہمارا اپنا طرز حیات تبدیل ہوچکا ہے تو دوسری طرف بچے بھی اس کی زد سے محفوظ نہیں رہے۔ آج ایک سال کا بچہ بھی موبائل دیکھ کرروتے روتے ہنسنے لگتا ہے۔ وہ فیڈر بھی تب پیتا ہے جب اس کے سامنے کارٹون چل رہے ہوں۔ ٹچ اسکرین کا مزہ وہ بھی لے چکا ہے اور اس کو کچھ سمجھ آتی ہو یا نہ آتی ہو لیکن اسکرین پر ٹچ ضرور کرتا ہے۔ کچھ بڑے بچے گیمز کے شوقین ہیں اور اس حد تک دیوانے ہیں کہ گیمز کھیلنے کے دوران وہ اردگرد سے بالکل بے نیاز ہوجاتے ہیں اور روٹین کے مطابق اگر انھیں موبائل نہ ملے تو وہ پورا گھر سر پر اٹھالیتے ہیں۔

بطور والدین ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ آج کی نسل پرانی نسل سے بالکل مختلف ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کی ترقی نے آج کے بچوں کی سمجھ بوجھ اور چیزوں کی سلیکشن کو انتہائی تیز کردیا ہے جس سے د و چیزیں بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ بچوں کے احساسات اور ان کا قوت فیصلہ۔ سوشل میڈیا کی فرضی دنیا میں رہنے کی وجہ سے ان کے حقیقی دنیا کے احساسات کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ چنانچہ آج وہ رشتوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنا سوشل میڈیا کے دوستوں کو دیتے ہیں۔ مختلف قسم کے اشتہارات دیکھ دیکھ کر وہ بھی راتوں رات امیر بننا چاہتے ہیں اور اس وجہ سے ایک غیر محسوس طریقے سے وہ مادہ پرستی کے دائرے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ وہ لوگوں سے ملنے اور گھر والوں کے ساتھ بیٹھنے کی نسبت ڈالرز کمانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک ہی کونے میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے وہ معاشرے سے کٹتے جارہے ہیں اور ان کا سوشل سرکل نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔

دوسری چیز فیصلہ (انتخاب) ہے۔ آج دوسال کا بچہ بھی یوٹیوب پر اپنی مرضی کی چیزیں نکالتا اور دیکھتا ہے جبکہ دوسری طرف ایسی گیمز موجود ہیں جن میں ایک بٹن دبانے سے زمین میں درخت لگ جاتاہے۔ دوسرا بٹن دبانے سے اس کے پتے نکل آتے اور تیسرے بٹن پر اس میں پھل بھی لگ جاتا ہے۔ اب یہ دراصل ٹیکنالوجی کی اسپیڈ ہے جس کو نئی نسل زندگی کی اسپیڈ سمجھ لیتی ہے اور پھر حقیقی دنیا میں جب کام اتنی تیزی سے نہیں ہوتے تو وہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور جذباتی صدمے کا شکار ہوکر معاشرے سے کٹ جاتے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی اتنی آسان نہیں ہے۔ یہ ایک طویل سفر ہے جس میں انسان کو صبر و تحمل سے کام لینا ہوتا ہے اور بہت سی چیزوں کو برداشت کرنا ہوتا ہے۔ فطرت میں موجود تمام چیزیں ایک پراسس سے گزر کر مکمل ہوتی ہیں اور صبر کی بدولت ہی پائیدار بنتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کی بدولت آج کا بچہ ہر چیز سے باخبر ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس کا یہ دعویٰ سطحی نوعیت کا ہے، اس میں گہرائی نہیں ہے کیونکہ چیزوں کو گہرائی میں سمجھنے کے لیے صبر چاہیے ہوتا ہے جو کہ آج کی نسل کے پا س ہے ہی نہیں۔

تو پھر آج کی نسل کو ڈیل کیسے کیا جائے : یہ ایک نازک ترین مسئلہ ہے۔ صورت حال کچھ یوں ہے کہ والدین ایک سرے پر کھڑے ہیں اور نئی نسل دوسرے سرے پر۔ والدین اگر اپنی رائے اور سوچ بچوں پر تھوپناچاہیں تو بات بگڑ سکتی ہے اور بجائے فائدہ کے نقصان ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف اگر نئی نسل کو کھلا چھوڑ دیا جائے تب بھی بھٹکنے کا پورا امکان ہے۔ لہٰذا والدین نے انتہائی احتیاط کے ساتھ قدم اٹھانا ہوگا اور بچوں کو محبت کی زنجیر سے باندھ کر ان کی تربیت کرنی ہوگی۔

تربیت کے سلسلے میں پہلی چیز گھر کا وہ ماحول ہے جو والدین نے برقرار رکھا ہوتا ہے۔ والدین کی ذات میں اگر صبر و تحمل اور سمجھداری موجود ہے، وہ جذباتی کمزوری کا شکار نہیں، وہ معمولی بات پر آپے سے باہر نہیں ہوتے اور ان کا اللہ کی ذات پر مکمل یقین ہے تو پھر یہ چیزیں آہستہ آہستہ بچوں کی ذات میں بھی اترتی جاتی ہیں اور وہ بیرونی دنیا میں ہزار خطروں اور چیلنجز کے باوجود مشکلات کا شکار نہیں ہوتے۔

دوسری اہم چیز، والدین کا خود کو سمجھنا : آپ اپنے بچپن کو یاد کریں کہ آپ کس طرح کے جذبات سے گزرے تھے، آئس کریم آپ کو بھی پسند تھی، چاکلیٹ کے لیے آپ بھی روتے تھے بہن بھائیوں کے ساتھ آپ بھی لڑتے تھے، شور بھی کرتے تھے، چیزیں بھی توڑ دیتے تھے اور چھپ کر گھر سے باہر نکلنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ آپ سوچیں کہ وہ کون سے مواقع تھے جہاں پر واقعی آپ کی غلطی تھی اور کہاں پر والدین کی کمزوری۔ اگر آپ کو لگے کہ آپ کے والدین کسی مقام پرغلط فہمی کا شکار ہوئے اور انھوں نے ایسا قدم اٹھایا تھا جوکہ ٹھیک نہیں تھا تو اپنے بچوں کی تربیت میں آپ ایسی غلطی نہ دہرائیں۔ آپ کا بچہ کوئی غلطی کرتا ہے تو فوری ردعمل دینے سے خود کو روکیں، سوچیں کہ مجھے ایک سمجھدار انسان کے طور پر کیا کرنا چاہیے۔ خود کو جذباتی کیفیت سے نکالیں اور عقلی بنیاد پر فیصلہ کریں۔

تیسری اہم چیز، بات چیت اور بچوں کو سننا : بدقسمتی یہ ہے کہ آج ہم اپنے فیس بک کے پانچ ہزار دوستوں سے تو رابطے میں ہوتے ہیں لیکن اپنے گھر میں ایک دوسرے سے بے خبر ہوتے ہیں۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ کے اور بچوں کے درمیان خلیج نہیں ہونی چاہیے۔ بات چیت کریں جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ ان کی شخصیت، ان کے مزاج، رجحان اور پسند یا ناپسند سے واقف ہوجائیں گے۔ والدین کے ساتھ آپ ایک سہولت کار بھی بنیں گے اور ان کے خوابو ں کو پورا کرنے میں ان کی مدد کریں گے۔

چوتھی چیز، بچوں کے جذبات کو سمجھنا : یہ بہت ضروری ہے۔ آپ کا بچہ اگر کسی ایسی چیز کا مطالبہ کر رہا ہے جو اس کے لیے ٹھیک نہیں تو آپ فوری طور پر اس کی بات کا انکار نہ کریں۔ آپ کہیں کہ ’’ بیٹا ! اس وقت آپ کو آئس کریم چاہیے نا، مجھے پتہ ہے کہ آپ کا آئس کریم کھانے کو بہت دل کررہا ہے۔ میں آپ کے جذبات واحساسات کو ہم سمجھتے ہوں۔ اس کے بعد آپ ان کے ساتھ ایسا سمجھوتہ کرسکتے ہیں جس سے’ ’سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘‘، لیکن اگر آپ نے فوری طور پر ان کی بات ماننے سے انکار کیا تو یہ چیز ان کی شخصیت میں ایک خلا پیدا کر دیتی ہے، وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوسکتے ہیں یا پھر ضد میں آکر کسی بھی قیمت پر وہ چیز حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں اور یہ طریقہ یقینی طور پر نقصان دہ ہوگا۔
پانچویں چیز ، بے جا سختی اور مار سے گریز: یاد رکھیں جو والدین مار کا طریقہ اپناتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ذات میں کوئی نفسیاتی کمزوری ہے اور اس محرومی کو پورا کرنے کے لیے وہ مار کا سہارا لیتے ہیں۔ اگر آپ کا رویہ بچوں کے ساتھ سخت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اور آپ کے بچے ایک ذہنی سطح پر نہیں ہیں۔ آپ کی سختی کی وجہ سے وہ وقتی طور پر ٹھیک تو ہوسکتے ہیں لیکن جب بھی وہ آپ کی نظروں سے اوجھل ہوں گے تو دوبارہ اپنی اصلیت پر آجائیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کے اور بچوں کے درمیان خلا موجود ہے تواس کو کوئی بھی دوسرا فرد بڑی آسانی کے ساتھ پُر کرسکتا ہے۔ پھر بچہ وہی سیکھے گا جو وہ فرد اس کو سکھائے گا، وہی کرے گا جو وہ اس کو بتائے گا اور اس کی سوچ وہ ہوگی جس طرح وہ فرد اس کی ذہن سازی کرے گا۔ مختصر یہ کہ آپ کا بچہ آپ کے ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔

چھٹی چیز، بچوں سے بے جا اُمیدیں اور توقعات: ہمیں اس بات کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ہر بچہ ٹاپ نہیں کرسکتا۔جب بھی بچوں پر والدین کی امیدوں کاپریشر بڑھتاہے تووہ راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ آج تعلیمی اداروں میں آئس نشے کے بارے میں سرعام بات چیت ہورہی ہے کہ اس سے اسٹریس بھی کم ہوتا ہے اور نمبربھی زیادہ آتے ہیں۔ یادرکھیں کہ آئس ایک یقینی موت ہے۔مجھے اور آپ کو فٹ پاتھ پر جو لوگ بے سدھ پڑے نظر آتے ہیں یہ لوگ مریخ سے نہیں آئے بلکہ تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگا کہ چند ماہ پہلے یہ کسی کالج ،یونیورسٹی کے طالب علم رہے ہوں گے۔

زندگی دھوپ چھائوں کاکھیل ہے،تلخ وشیریں یادوں کا مجموعہ ہے اورٹھوکر کھاکر گرنے اور دوبارہ کھڑے ہونے کی ایک لمبی ریس ہے۔اس میں ہمیشہ کامیابیاں نہیں ملتی ، اپنے بچوں کے ذہن میں صرف کامیابی کے سپنے نہ ڈالیں بلکہ انھیں ناکامی سے بھی متعارف کروائیں اور انھیں بتائیں کہ زندگی میں ناکامی کاسامناکرنا پڑے گالیکن اس کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ زندگی ختم ہوگئی بلکہ گرکر دوبارہ اٹھنا ہے اور ایک نئی لگن کے ساتھ آگے بڑھتے جاناہے۔

تحریر : قاسم علی شاہ

 

Advertisement