بیجنگ: (ویب ڈیسک) چین میں آبادی میں ہونے والی کمی کے باعث گزشتہ سال 2 لاکھ 95 ہزار نئے صنعتی روبوٹس فیکٹریوں میں نصب کیے گئے۔
چینی میڈیا کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ تیزی سے بوڑھی ہوتی آبادی میں روبوٹ ٹیکنالوجی کا یہ تیز رفتار پھیلاؤ مزدوروں کی کمی کو پورا کرنے میں مدد دے رہا ہے اور چین کے مینوفیکچرنگ شعبے کو مزید مستحکم کررہا ہے۔
بین الاقوامی فیڈریشن آف روبوٹکس (آئی ایف آر) کی 2025 کی رپورٹ کے مطابق چین میں فعال صنعتی روبوٹس کی تعداد 20 لاکھ 27 ہزار تک پہنچ چکی ہے جو کسی بھی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
2024 میں دنیا بھر میں نصب ہونے والے 5 لاکھ 42 ہزار نئے روبوٹس میں سے آدھے سے زیادہ چین میں لگائے گئے، یہ روبوٹس گاڑیوں کے فریم جوڑنے، الیکٹرانک آلات اسمبل کرنے اور بھاری سامان منتقل کرنے جیسے کاموں میں انسانوں کی جگہ لے رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیومنائیڈ روبوٹس، یعنی انسانی شکل کے خودکار روبوٹ، صنعتی ترقی کا اگلا مرحلہ ہیں، اگرچہ ان کے آرڈرز کی درست تعداد معلوم نہیں، مگر کئی کمپنیاں تحقیقی مرحلے سے نکل کر تجارتی پیمانے پر ان کی پیداوار کی جانب بڑھ رہی ہیں۔
چینی میڈیا کے مطابق رواں سال اگست میں چینی شہر گوانگ ڈونگ کی ایک کمپنی نے 10 ہزار ہیومنائیڈ روبوٹس کا آرڈر حاصل کیا، جو اس شعبے کی تاریخ کا سب سے بڑا آرڈر ہے، جس کا مقصد چین میں بزرگوں کی دیکھ بھال کے لیے روبوٹس فراہم کرنا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق چین کی آبادی میں پچھلے سال 0.1 فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ اسی دوران صنعتی روبوٹس کی تنصیب میں 5 فیصد اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں 2 لاکھ 95 ہزار نئے یونٹس نصب کیے گئے، جو دنیا بھر میں نصب ہونے والے نئے روبوٹس کا 54 فیصد ہے۔
اس فہرست میں جاپان دوسرے نمبر پر رہا جہاں 4 ہزار 500 نئے روبوٹس نصب کیے گئے جبکہ امریکا تیسرے نمبر پر رہا جہاں 34 ہزار 200 روبوٹس نصب ہوئے، 2024 میں دنیا بھر میں روبوٹس کی تنصیبات کی مجموعی تعداد 9 فیصد اضافے کے ساتھ 46 لاکھ 64 ہزار تک پہنچ گئی۔