کیلیفورنیا: (ویب ڈیسک) فلکیات دانوں نے ایک اہم دریافت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انہوں نے قدیم یا ابتدائی کائنات کے روشن ترین جسم کو دیکھا ہے جو 13 ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے، یہ ایک کوزار ہے جو ایک قدیم کہکشاں کے مرکز میں بہت بڑے بلیک ہول پر مشتمل تھا۔
تیرہ ارب نوری سال پرانے اس منظر کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ تماشا اب ختم ہوچکا ہو گا کیونکہ ہم کائنات کی 13 ارب سال پرانی تصویر دیکھ رہے ہیں۔ ماہرینِ فلکیات کے مطابق اس روشن تصویر کی وجہ یہ ہے کہ کوزار کے بیچوں بیچ موجود بلیک ہول بڑی تیزی سے مادہ نگل رہا تھا جس سے زبردست توانائی خارج ہو رہی تھی جس کا مشاہدہ روشنی اور ریڈیو لہروں کی شکل میں گیا گیا ہے۔
مادے اور گرد کا ایک عظیم ذخیرہ بلیک ہول کے اندر گرتے ہوئے اس تیزی سے گھوم رہا تھا جیسے ایک گڑھے میں پانی گرتے ہوئے بھنور کی طرح چکر کھاتا ہے۔ اس سے بلیک ہول کے مرکز میں طاقتور ثقلی لہریں پیدا ہورہی تھیں۔ مادہ نگلتے دوران بلیک ہول سے پلازما کی بڑی مقدار خارج ہورہی تھی جو بہت روشن نظر آرہی ہے۔
اس کوزار کا نام پی 352-15 رکھا گیا ہے جواس وقت بنا تھا جب کائنات قدرے نوعمر تھی۔ اسے کارنیگی انسٹی ٹیوشن فار سائنس کے پروفیسر ایڈوارڈو باناڈوس اور ان کے ساتھیوں نے نیو میکسیکو میں واقع، 27 طاقتور ریڈیو دوربینوں کے مجموعے ’’ویری لارج ایرے‘‘ (وی ایل اے) کی مدد سے دریافت کیا گیا ہے۔
اب تک یہ دورترین مقام پر دریافت ہونے والا کوزار بھی ہے جس سے روشن پلازما کی دو بوچھاڑیں نکل رہی ہیں اور یوں یہ ایک روشن ترین جسم بھی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اس وقت کا منظر ہے جب کائنات کو وجود میں آئے ہوئے ایک ارب سال بھی نہیں ہوئے تھے۔ اس دریافت کی تفصیلات ’’ایسٹروفزیکل جرنل‘‘ کے تازہ شمارے میں شامل دو تحقیقی مقالوں میں شائع ہوئی ہیں۔