برلن: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں ٹیکنالوجی میں جتنی جدت آتی جا رہی ہے اتنی ہی لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوتی جا رہی ہیں، بیس سال قبل اکثرخبریں سننے کو ملتی تھیں کہ ایک شہر سے دوسرے شہر تک پیغام پہنچانے کے لیے خط لکھے جاتے تھے تاہم اس دوران ٹیکنالوجی کا انقلاب برپا ہوا تو یہ کام ای میل کے ذریعے کیا جانے لگا، خط کے حوالے سے ایک خبر جرمنی سے آئی ہے جسے پڑھ کر سب حیران ہو گئے ہیں، آج بھی ایک ایسا جزیرہ ہے جہاں پر ایک شخص سمندر سے گزر کر خط دوسری جگہ پہنچایا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سمندر کی سطح میں اضافے، عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو جرمن جزیرے پیل ورم کے باسی سے زیادہ کون جانتا ہے جو برسوں سے سمندر عبور کر کے خط پہنچانے کا کام سر انجام دے رہا ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق کنڈ کنوڈسن بحیرہ واڈن کو برسوں سے عبور کر کے خطوں کی ترسیل کرتے ہیں۔ وہ جرمن جزیرے پیل ورم میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے۔
انہوں وہ پیل ورم جزیرے پر زندگی کے معمولات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ میں یہاں پیدا ہوا، بڑا ہوا، میں اس جگہ کے چپے چپے سے واقف ہوں۔ اتنا جانتا ہوں کہ میں کسی شہر میں نہیں رہ سکتا۔
کنوڈسن کا کہنا تھا کہ وقت کیساتھ ساتھ انکا علاقہ بہت تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ میرے سکول کے دور سے اب تک یہاں بہت تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ یہاں بڑی بڑی عمارتیں بن گئی ہیں۔ ماضی میں یہاں کھیت ہوا کرتے تھے۔ یہاں قدرتی مناظر ہوا کرتے تھے۔ مگر اب ایک یکسانیت سی ہے۔ مشکل سے ہی اب یہاں پھول دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے وہ وقت یاد ہے، جب سڑک کنارے پھول ہوا کرتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ میری نگاہ میں سمندر ایک مسلسل حرکت کی علامت ہے۔ سمندر کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتا۔ پیل ورم کو بغیر سمندر کے سوچ بھی نہیں سکتا۔ سمندر ہی ہے جو مجھے سکون کا احساس دیتا ہے۔ پانی زندگی ہے۔
کنوڈسن موحولیاتی تبدیلیوں پر تو براہ راست بات نہیں کرتے تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ پچھلی کچھ دہائیوں میں لہروں کی شدت بڑھی ہے۔ نہایت پریشانی کی بات ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں گلیشیئرز کس طرح پگھلے ہیں۔
کنوڈسن کا کہنا تھا کہ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ آیا ایسا ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے مگر یہ ضرور کہوں گا کہ جب ہم چھوٹے تھے، تو سردی، گرمی ، خزاں اور بہار کا فرق واضح ہوا کرتا تھا۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ سردیاں گرم ہورہی ہیں اور گرمیاں سرد ہو رہی ہیں۔