بیجنگ: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں کچھ ایسی دلچسپ و عجیب خبریں سامنے آتی ہیں جن پر فوری طور پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے، کچھ خبریں نہایت دلچسپ ہونے کے ساتھ شہریوں کو محظوظ بھی کرتی ہیں، اسی طرح کی ایک خبر چین سے آئی ہے جہاں پر ہنر مچھلی کی جلد سے لباس بنانے کا ہنر تیزی سے بڑھنے لگا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’’اے ایف پی‘‘ کے مطابق چین کا اقلیتی نسلی گروہ ہیزن کچھ ہی افراد پر مشتمل ہے لیکن ان کے پاس منفرد ہنر ہے جو وہ دوسروں کو منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ ہنر مچھلی کی جلد سے لباس بنانے کا ہے۔ نسلی گروہ کے کچھ ہی افراد میں سے خاتون بھی ہیں جن کو ہنر آتا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق یووینگ فین ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں جب 1930 کی دہائی میں انکے خاندان کو جاپان کے زیرانتظام شمال مشرقی چینی حصے مینچوریا کے جبری مزدوری کے کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
68 برس کی یووینگ فینگ کو ان کی والدہ کی جانب سے مچھلی کی جلد سے لباس بنانے کا یہ ہنر ملا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ہیزن قبیلے کی تعداد 300 سے بڑھ کر 5000 تک پہنچ گئی تھی۔ مچھلی کی جلد کا یہ لباس سیم مائی، مائیک اور سالمن مچھلی سے بنتا ہے۔
ہیزن قبیلے کے کچھ ہی افراد اس لباس کے بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ لباس اب ان لوگوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ نہیں رہا۔ یو وینگ فینگ کو مچھلی کی جلد سے لباس بنانے کا ہنر ختم ہونے کا اندیشہ ہے، انہوں نے اس ہنر کو تونگ جیانگ کی مقامی خواتین کو سکھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
یو وینگ فینگ ماہی گیری سے متعلق اپنی زبان کی آوازوں اور گانوں کا علم بھی منتقل کرنا چاہتی ہیں لیکن یہ ایک مشکل کام ہے۔ جب جنگلات میں پانی بھر جاتا ہے تو اس میں مچھلیاں بہت ہوتی ہیں جن کو بآسانی پکڑا جا سکتا ہے۔عورت کے لباس کے لیے 50 جبکہ مرد کے لباس کے لیے 56 مچھلیوں کی جلد کی ضرورت ہوتی ہیں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ہم مچھلیوں کی جلد الگ کرتے ہیں پھر اس کو خشک کرتے ہیں۔ اس جلد کو نرم کیا جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں ایک مہینہ گزرتا ہے جبکہ سلائی میں 20 دن لگتے ہیں۔ روئٹرز کے مطابق کاروباری بنیادوں پر اس مقامی منفرد ہنر کو بچایا جا سکتا ہے۔
انٹرنیشنل برانڈز پراڈا اور ڈیار کبھی کبھار مچھلی کی جلد کو اپنے پروڈکٹس کی تیاری میں استعمال کر لیتے ہیں تاہم مچھلی کی جلد کا لباس اب بھی لوگوں کے لیے ایک تجسس ہے۔