بریگزیٹ کے معاملے پر برطانیہ میں سیاسی بحران

Last Updated On 16 November,2018 10:25 pm

لندن: (دنیا نیوز) بریگزیٹ کے معاملے پر برطانیہ میں سیاسی بحران عروج پر پہنچ گیا، وزیر اعظم تھریسا مے کے پانچ وزراء نے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا، حکومت خطرے میں پڑ گئی۔ اپوزیشن رہنما جیرمی کوربن کہتے ہیں یہ وہ ڈیل تو نہیں جس کا ملک کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔

بریگزیٹ ڈیل ایک اور برطانوی حکومت نگلنے کی راہ پر چل نکلی۔ یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے طے پانے والے معاہدے سے ناخوش تھریسامے کے پانچ وزراء مستعفی ہو گئے۔

سب سے پہلے بریگزیٹ سیکریٹری ڈومینک راب نے استعفی دیا جس کے بعد ورک اینڈ پینشن سیکرٹری اور پارلیمانی پرائیوٹ سیکریٹری نے بھی ان کی پیروی کی۔ اس سے پہلے 2016 میں ڈیوڈ کیمرون بریگزیٹ ریفرنڈم کا فیصلہ خلاف آنے پر وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوگئے تھے۔

دوسری جانب دار العوام میں وزیر اعظم تھریسامے پر حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی، تھریسامے کہتی ہیں کہ ان کو ریفرنڈم کے ذریعے عوام نے ڈیل کا مینڈیٹ دیا تھا جبکہ اپوزیشن رہنما جیرمی کوربن کا کہنا ہے کہ یہ ڈیل وہ نہیں ہے جس کا ملک سے وعدہ کیا گیا تھا۔


یاد رہے کہ جون 2016 میں ہونے والے ریفرنڈم میں 52 فیصد برطانوی عوام نے یورپی یونین سے الگ ہونے کے حق میں ووٹ دیا تھا جبکہ مخالفت میں4 فیصد ووٹ پڑے تھے۔برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتداء میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہوسکے گا۔
معاہدے میں کیا ہے؟

اس مجوزہ معاہدے میں ان معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جنھیں عام طور پر ’طلاق‘ کے معاملات کہا جا رہا تھا۔ اس میں اس بات کا عزم کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں مقیم یورپی شہریوں اور یورپ میں رہنے والے برطانوی شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔اس میں مارچ 2019 میں برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے بعد 19 ماہ کا ایک منتقلی دورانیہ بھی رکھا گیا ہے اور مالی حوالے سے برطانیہ کی جانب سے 39 ارب پاؤنڈ کی ادائیگی بھی رکھی گئی ہے۔

مذاکرات کا سب سے متنازع حصہ اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ اگر برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تجارتی معاہدہ نہیں ہوتا تواس بات کی ضمانت دی جائے کہ برطانیہ اور آئرلینڈ کی سرحد پر لوگوں کی آمد و رفت کے لیے چیک پوسٹیں نہیں بنائی جائیں گی۔ دونوں قریقوں نے اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ ضمانت نہیں مگر اس سلسلے میں متبادل نظام بنایا جائے گا

یورپی یونین کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن مائیکل بارنیئیر کا کہنا تھا کہ اگر جولائی 2020 تک ایسا ممکن نہ ہو سکا تو منتقلی دورانیہ بڑھایا جا سکتا ہے اور اگر پھر بھی یہ معاملہ حل نہیں ہوتا تو ضمانتی اقدامات لاگو ہو جائیں گے۔ان اقدامات میں برطانیہ اور یورپی یونین کو ایک مشترکہ کسٹمز علاقے مانا جائے گا تاکہ سرحد پر چیک پوسٹوں کی ضوروت نہ پڑے۔

ادھر ٹوری پارٹی کے رکن اراکینِ پارلیمنٹ اس بات پر ناراض ہیں کہ ان کے خیال میں اس کا مطلب ہے کہ برطانیہ کو آئندہ کئی سالوں تک یورپی یونین کے قوانین ماننا پڑیں گے۔