لاہور: (روزنامہ دنیا) سلیمان اول سلطنت عثمانیہ کے دسویں اور طویل ترین عرصہ حکمران رہنے والے سلطان تھے۔ وہ 1520ء میں اس منصب پر فائز ہوئے اور 1566ء میں اپنے انتقال تک رہے۔ ان کے عہد میں سلطنت عثمانیہ کے انتظامی علاقوں کی آبادی ڈیڑھ سے ڈھائی کروڑ تھی جو اس زمانے کے اعتبار سے ایک بڑی آبادی تھی۔
سلیمان عالیشان انتہائی اہم عثمانی حکمران تھے ۔ انہوں نے مملکت کے لیے قانون سازی کا جو خصوصی اہتمام کیا اس کی بنا پر ترک انہیں سلیمان قانونی کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ مغربی مصنفین ان کی عظمت کو مانتے ہیں۔ وہ انہیں سلیمان عالیشان اور سلیمان اعظم کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان کی حکومت میں سرزمین حجاز، ترکی، مصر، الجزائر، عراق، کردستان، یمن، شام، بیت المقدس، خلیج فارس اور بحیرہ روم کے ساحلی علاقے، یونان اور مشرقی و مغربی ہنگری شامل تھے۔ اس طرح سولہویں صدی میں نہ صرف ایشیا بلکہ یورپ کے وہ ایک اہم حکمران تھے۔ جہاں انہوں نے یورپ میں مسیحیوں کے اہم مراکز کو فتح کیا وہیں صفویوں کو شکست دیتے ہوئے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے متعدد علاقے سلطنت میں شامل کیے۔ انہوں نے بحری قوت کو بہت بڑھایا جس کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ کا بحری بیڑا بحیرہ روم، بحیرہ قلزم اور خلیج فارس پر حکمرانی کرتا تھا۔ وہ شاعر بھی تھے اور فنون کی سرپرستی کرتے تھے۔
ان کے دور میں سلطنت عثمانیہ میں فن و ادب اور تعمیرات کے شعبوں میں بہت ترقی ہوئی۔ اس حوالے سے یہ سلطنت کا عہدزریں کہلاتا ہے۔ سلیمان 6 نومبر 1494ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد سلیم اول سلطنت عثمانیہ کے نویں سلطان تھے جبکہ والدہ کا نام عائشہ حفصہ سلطان تھا۔ سلیمان نے اپنے والد سے 16 سال تک جنگی فنون کی تربیت حاصل کی۔ سلیم اول نے اپنے بیٹے کی دینی و دنیاوی تعلیم پر مکمل توجہ دی۔سات سال کی عمر میں سلیمان کو سائنس، تاریخ، ادب، الہٰیات اور جنگی فنون سیکھنے کے لیے توپ کاپی محل، قسطنطنیہ میں بھیجا گیا۔ 1520ء میں سلیم اول کے انتقال کے بعد عثمانی سلطنت کی باگ ڈور سلیمان اول کے ہاتھوں میں آئی۔
سلیمان نے اپنے 46 سالہ دور حکومت میں خلافت عثمانیہ کو سیاسی برتری دلوانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے بے انتہا کاوشیں کیں۔ اس دور میں مغربی طاقتیں بیدار اور متحد ہو رہی تھیں اور بڑی بڑی شخصیات عثمانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں آگئی تھیں مثلاً شہنشاہ چارلس پنجم جو یورپ کے نصف سے زائد حصے پر حکمران تھا جس میں موجودہ سپین، بلجیم، ہالینڈ اور جرمنی شامل تھے، ادھر انگلستان میں ملکہ ایلزبتھ اول حکمران تھی اور ہنگری پر شاہ لوئی کا سکہ چل رہا تھا۔ فرانس، انگلستان اور آسٹریا نے اپنے اختلافات ختم کر لیے تھے اور مغربی طاقتیں متحد ہونے کی فکر میں تھیں۔ چنانچہ حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے 46سالہ دور حکومت میں سلیمان کسی نہ کسی جنگ یا مہم میں مصروف رہے حتیٰ کہ جنگ کے دوران ہی انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
انہوں نے ذاتی طور پر 13 بڑی جنگوں میں شرکت کی جن میں سے تین ایشیا میں اور 10 یورپ میں لڑی گئیں اور اس طرح سلطنت عثمانیہ کی حدود میں متعدد مرتبہ توسیع کی۔ 1565ء میں آسٹریا سے جنگ دوسری بار شروع ہوئی تو مغربی طاقتوں نے کچھ کامیابیاں حاصل کیں۔ سلطان اس زمانے میں بیمار تھے انہیں گٹھیا کی شکایت تھی اس کے باوجود افواج کی قیادت کے لیے نکل آئے۔ آسٹریا کے قلعہ سگتوار کا محاصرہ 1565ء میں شروع ہوا اور بالآخر قلعہ فتح ہو گیا۔ اسی دوران وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔