لاہور: ( روزنامہ دنیا) سری لنکا کے دارالحکومت میں نئی گاڑیوں میں گھومنے والے 2 بھائیوں کے ہمسائے یہ سمجھنے سے ابھی تک قاصر ہیں کہ پرکشش معاشی کیریئر کے حامل دونوں بھائی شدت پسندی کی طرف مائل ہو کر خودکش بمبار کیسے بن گئے۔
55 سالہ رومن کیتھولک مہانامہ جیامانی نے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ایسٹر حملوں کے بعد اپنی آبادی پر ہیلی کاپٹروں کی پروازیں دیکھ کر وہ سخت حیرت زدہ اور خوفزدہ ہو گئے تھے۔ سب کو یہ لگا کہ دہشت گرد قریبی عمارت میں چھپے ہوئے ہیں، پھر مجھے محسوس ہوا کہ دھماکہ عمارت میں پہلے سے مقیم شخص نے کیا ہے۔ وہ عمارت دونوں بھائیوں الہام ابراہیم اور انشاف احمد کا گھر تھی۔ وہ مصالحوں کے نفع بخش کاروبار اور فیکٹری چلانے میں والد کے معاون تھے، اسی کاروبار نے انہیں پرتعیش گاڑیاں اور مکان دیا تھا۔ ایسٹر کے روز دارالحکومت کے دو ہوٹلوں پر خودکش حملہ مبینہ طور پر انہی بھائیوں نے کیا تھا۔ تحقیقات کے فوری بعد پولیس مہاویلا گارڈنز کی پرشکوہ عمارت تک پہنچ گئی۔
جب سکیورٹی فورسز نے تین منزلہ عمارت پر چھاپہ مارا تو ایک بھائی کی حاملہ بیوی نے خود کو بم دھماکے سے اڑا لیا، جس کے نتیجے میں وہ ، اس کے دو بچے اور 2 پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ ایک اور رشتہ دار نے بھی خود کو اڑا لیا جس کے باعث ایک پولیس انسپکٹر مارا گیا۔ ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ خاندان کے دیگر ارکان جانتے تھے کہ دونوں بھائیوں نے کیا کیا تھا، لگتا ہے کہ انہیں معلوم تھا کہ پولیس آ رہی ہے۔
1990 کی دہائی میں جب دونوں کا والد ابراہیم حاجیر اس آبادی میں منتقل ہوا اس وقت وہ مالدیپ سے خشک مچھلیاں درآمد کرنیوالا ایک درمیانے درجے کا تاجر تھا۔ کنسٹرکشن کمپنی کا مالک مہانامہ جیامانی جو کہ ابراہیم کا دوست بن گیا تھا نے اپنے ہمسائے کی کاروباری صلاحیتوں کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ ابراہیم کے مالی حالات جیسے ہی بہتر ہوئے، وہ قریبی عمارت میں منتقل ہو گیا، قیمتی گاڑیوں کا پورا بیڑا خرید لیا مگر کام کے حوالے سے اس کے معمولات پر کوئی فرق نہ پڑا۔ اگر اس کا ڈرائیور وقت پر نہ پہنچ سکے تو وہ رکشہ میں کام پر چلا جاتا تھا۔ والد کا دوست ہونے کے ناطے دونوں بھائیوں نے ہمیشہ ان کا احترام کیا۔
انہوں نے کہا کہ دولت کے علاوہ اس خاندان کی ایک اور نمایاں خصوصیت دونوں بھائیوں کی بیویاں کا سخت پردہ کرنا تھا۔ ان کے گھر میرا آنا جانا لگا رہتا تھا مگر میں نے ایک مرتبہ بھی کسی بہو کا چہرہ نہیں دیکھا۔ گلی میں کھیلنا آبادی کے تمام بچوں کا معمول تھا لیکن اس خاندان کے بچے شاذو نادر ہی گلی میں دکھائی دیتے تھے۔ 26 سالہ شاسنا رفیع الدین نے بتایا کہ اس خاندان کی خواتین مکمل پردہ کرتی تھی، مرد ہمیشہ ٹوپی میں دکھائی دیتے جو کہ انہیں عجیب لگتا تھا۔ میں بھی مسلمان ہوں، مگر وہ کچھ زیادہ ہی قدامت پسند تھے، مگر ہمیں ایسا کبھی نہیں لگا کہ وہ اتنے متشدد ہونگے۔ دونوں بھائیوں کا تعلق نیشنل جماعت التوحید سے تھا، جس کی بنیاد مقامی مبلغ زہران ہاشم نے رکھی جس کے داعش کیساتھ روابط تھے۔
پولیس یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ دونوں بھائیوں کے بنیاد پرست ہاشم کیساتھ روابط کیسے قائم ہوئے، جسے مقامی مدرسہ سے نکال دیا گیا تھا اور اعتدال پسند مسلمان اس سے خطرہ محسوس کرتے تھے۔ تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ 2017 میں ہاشم نے دونوں بھائی تک رسائی حاصل کی جس کی وجہ ان کی دولت تھی کیونکہ ہاشم کو عسکری سرگرمیوں کیلئے فنڈز کی ضرورت تھی۔
ایک رپورٹ کے مطابق دونوں بھائیوں نے خودکش حملے سے قبل اپنے لاکھوں ڈالر کی جائیداد عزیزوں کے نام وصیت کر دی تھی۔ والد سمیت اس خاندان کے کچھ ارکان اس وقت حراست میں ہیں۔ جیامانی نے بتایا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایک خاندان جوکہ اس کے دوستوں میں شامل تھا، اس نے کیسے اتنے بڑے پیمانے پر مسیحیوں کا قتل عام کیا۔ ایک کیتھولک مسیحی کی حیثیت سے انہیں اس بات کا سخت دکھ ہے، انہیں لگتا ہے کہ ان کیساتھ دھوکہ ہوا، بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ سری لنکن مسلمانوں سمیت ہر شہری کیساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ یہ بات واضح ہونے کے باوجود کہ دونوں بھائی خودکش حملوں میں ملوث تھے، میرا دل ابھی تک اسے قبول کرنے کو تیار نہیں۔