لاہور: (روزنامہ دنیا) بحرالکاہل میں ایک روسی اور امریکی جنگی جہاز کے ٹکر سے بال بال بچنے کے واقعے کے بعد دونوں ممالک ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔
روسکا کہنا ہے کہ امریکی جنگی جہاز ان کے جہاز کے سامنے صرف 50 میٹر کے فاصلے تک پہنچ گیا تھا۔ ان کے مطابق انھیں امریکی جہاز سے بچنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے پڑے۔ لیکن امریکیوں نے الزام لگایا ہے کہ اس واقعے کے ذمہ دار روسی ہیں۔ امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کے کمانڈر کلائٹن ڈوس نے الزام لگایا کہ روسی جہاز نے ‘یو ایس ایس چانسلر ویل‘ کے سامنے ایک غیر محفوظ قدم اٹھایا۔ انھوں نے روسی الزام کو ‘پراپیگنڈا’ قرار دیا۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ روسی جہاز ایڈمرل ونوگرادوف ان کے جہاز کے 50 سے 100 فٹ تک قریب آ گیا تھا۔ روس کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ مشرقی بحیرہ چین کے جنوب مشرق میں پیش آیا اور یہ کہ انھوں نے امریکی جہاز کے کمانڈرز کو ایک احتجاجی پیغام بھیجا ہے ۔ایک بیان میں روسیوں نے کہا کہ امریکی جنگی جہاز نے ‘اچانک سے اپنا رخ موڑ لیا اور صرف 50 میٹر کی دوری پر ایڈمرل ونوگرادوف کے راستے میں آ گیا۔’
دو جنگی جہاز اور دو موقف، لیکن ایک انتہائی خطرناک صورتحال پیدا ہوئی جس میں ایک حادثہ ہو سکتا تھا۔ اس حجم کے جہازوں کا ایک دوسرے کے اتنا قریب آنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ شاید ایک یا دونوں کی ہی غلطی تھی۔ لیکن اس قسم کے واقعات بڑھ رہے ہیں اور عام طور پر ایسا لگتا ہے کہ یہ روس کی جانب سے ایک طے شدہ پالیسی کا نتیجہ ہے تاکہ بحری مشنز کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو چیلنج کیا جا سکے۔ عموماً اس قسم کے واقعات بحیرہِ اسود میں پیش آتے ہیں جس پر ماسکو اپنی اجارہ داری سمجھتا ہے جبکہ اس کے ساحل پر واقع دیگر ممالک، جن میں چند نیٹو ممبران بھی شامل ہیں، اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
ایشیا اور بحرالکاہل کے پانیوں میں امریکہ اور روس کے درمیان ایسے واقعات کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں کیونکہ وہاں امریکہ اور چین کے جہازوں اور طیاروں میں کشیدگی دیکھنے میں آتی ہے۔ لیکن ایسا جہاں بھی ہو وہ خطرناک ہے۔ دونوں ممالک ہوا اور پانی میں ایک دوسرے پر خطرناک فوجی اقدامات کرنے کے الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ نومبر میں امریکہ نے ایک روسی جیٹ طیارے کی ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اس ویڈیو میں روسی جیٹ کو بحر اسود کے اوپر ایک امریکی طیارے کی راہ میں آتے دیکھا جا سکتا ہے۔ امریکہ نے اسے غیر ذمہ دارانہ قرار دیا تھا جبکہ روس کا کہنا تھا کہ اس نے ایسا اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کو روکنے کے لیے کیا تھا۔