بیجنگ: (ویب ڈیسک) ہانگ میں بڑھتے ہوئے مظاہروں کے بعد چین کی فوج ہانگ کانگ کے بارڈر کے پاس پہنچ گئی، خدشہ ہے کہ فوج کسی بھی وقت ہانگ کانگ میں داخل ہو کر کارروائی کر سکتی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق چین ہانگ کانگ کے قریب سرحدی شہر شین زین میں سکیورٹی اہلکاروں کی نقل و حرکت بڑھا رہا ہے۔ یہ مسلح پولیس فورس کے دستے ہیں، جنہیں بکتر بند گاڑیوں میں تعینات کیا جا رہا ہے۔ سکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت سے چین کھل کر پیغام دینا چاہتا ہے کہ ہانگ کانگ میں دس ہفتوں سے مظاہروں کو طاقت کے زور پرکچلنے کے لیے بھی تیار ہے۔
حالات چینی حکمرانوں کے لیے باعث تشویش ہوں گے لیکن بیجنگ حکومت خالی دھمکیوں پر یقین نہیں رکھتی۔ 30 برس پہلے بھی جب تیانانمن اسکوائر میں مظاہرے رُکنے کا نام نہیں لے رہے تھے تو کمیونسٹ قیادت نے کچلنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی تھی۔
خبر رساں ادارے کے مطابق اگر مسلح پیش قدمی ہوتی ہے تو ہانگ کانگ کو بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ دنیا کے اہم مالیاتی مرکز کا کاروبار برباد ہو سکتا ہے اور لوگوں کو حاصل بنیادی آزادیاں ہمشہ کے لیے ختم یا متاثر ہو سکتی ہیں۔ پھر ہانگ کانگ کے لوگوں کا کیا بنے گا؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین ہانگ کانگ کا معاملہ ’انسانی طریقے‘ سے حل کرے۔
ٹرمپ کا ایک اور ٹویٹ میں کہا تھا کہ مجھے ذرا بھی شک نہیں کہ صدر شی جن پنگ چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ جلد اور بہتر طریقے سے حل ہو، وہ یقیناﹰ ایسا کر سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ 1997 میں برطانیہ نے ہانگ کانگ کا انتظام واپس چین کے سپرد کر دیا تھا۔ اس وقت ایک معاہدہ طے کیا گیا تھا، جس کے تحت ہانگ کانگ کے لوگوں کے لیے زیادہ شہری آزادیاں یقینی بنائی گئی تھی، تاہم حالیہ مظاہرے 1997 کے بعد سے اس شہر میں ہونے والے سب سے بڑے احتجاجی اجتماعات ہیں۔
If President Xi would meet directly and personally with the protesters, there would be a happy and enlightened ending to the Hong Kong problem. I have no doubt! https://t.co/eFxMjgsG1K
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) August 15, 2019