لاہور: (دنیا میگزین) نازی ازم کا مطلب بیان کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ پہلے فاشزم یعنی فسطائیت کا مفہوم واضح کیا جائے۔ فاشزم حکومت کی وہ قسم ہے جس میں ایک جماعت کی آمریت ہوتی ہے۔
اس نظام پر یقین رکھنے والے جمہوریت سے نفرت کرتے ہیں۔ پوری حکومت کو ایک آمر کنٹرول کرتا ہے۔ یہ عوام کی نہیں بلکہ خواص کی حکومت ہوتی ہے۔ اس ریاست کا مطلب ہے کہ حکومتی نظام کی ہر شے مقبول کی جائے۔ کسی انسانی یاروحانی اقدار کا کوئی وجود نہیں ہونا چاہئے ۔
آج کل بھارت کے حوالے سے نازی ازم کا بہت شور ہے اور وزیراعظم عمران خان بھی بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نازی ازم کے اصولوں پر چل رہے ہیں۔
نازی ازم بھی فاشزم کی ہی شکل ہے اور اس کی ابتدا جرمنی سے ہوئی جہاں نازی پارٹی کا قیام 1920ء میں عمل میں آیا۔ ایڈولف ہٹلر بھی اس پارٹی میں شامل ہو گیا ۔ دراصل نازی پارٹی کا قیام 1914ء میں ہونے والی پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کا شاخسانہ تھا۔
ایڈوولف ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی 1933ء میں اقتدار میں آگئی اور اس کے بعد نازیوںنے جرمنی میں لبرل جمہوریت کا خاتمہ کر دیا۔ نازیوں نے جرمن عوام کو جنگ کے لئے متحرک کرنا شروع کردیا کیونکہ وہ کئی ممالک کے خلاف توسیع پسندانہ عزائم رکھتے تھے، جس طرح ہٹلر نے نازی ازم کی شکل میں جرمنی کو ایک فسطائی ریاست بنایا ، بالکل اسی طرح بینٹو مسولینی نے اٹلی میں اس نظریے کو فروغ دیا۔ اس نے 1915ء میں انقلابی فسطائی پارٹی کی بنیاد رکھی۔
نازی ازم کو قومی اشتراکیت ( National Socialism)کا نام بھی دیا گیا۔ اس کا ایک اورا ہم عنصر انتہا درجے کی نسل پرستی ہے ۔ نازی پارٹی والے یہ سمجھتے تھے کہ جرمن قوم آریا نسل سے تعلق رکھتی ہے اور آریائوں کی نسل سب سے برتر ہے اس لئے آریائوں کو ہی دنیا میں حکومت کرنے کا حق ہے ۔ اس سوچ کو جرمن قوم میں پروان چڑھایا گیا۔
دوسری طرف نازی ازم پر یقین رکھنے والے کیمونزم کے بھی شدید مخالف تھے ۔ 1918ء میں جب پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی تو 1919میں امن کا معاہدہ ہوا جس کے تحت جرمنی سے کہا گیا کہ وہ اپنے ملک میں اصلاحات کرے۔
ہٹلر نے اسی سال نازی پارٹی میں شمولیت اختیار کی جس سال اس کی بنیاد رکھی گئی۔ 1921ء میں وہ نازی پارٹی کا لیڈر بن گیا۔ 1933ء میں وہ جرمنی کا چانسلر بن گیا اور اس کی نازی حکومت نے جلد ہی آمرانہ اختیارات حاصل کرلئے ۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ 1919ء میں جرمنی کی شکست سے ایڈولف ہٹلر کو سخت مایوسی ہوئی تھی جس نے جرمن قوم کو معاشی طور پر سخت نقصان پہنچایا تھا اور سیاسی عدم استحکام سے بھی دوچار کیا تھا۔
اس لئے سب سے پہلے جرمن ورکرز پارٹی تشکیل دی گئی ۔ اس پارٹی کی بنیاد پر تھوڑا عرصہ قبل کچھ افراد نے رکھی تھی جن میں لاکھ سمتھ انٹین ڈریکسلر(1884-1942)اورصحافی کارل ہیرو (1890-1926)شامل تھے ۔ اس پارٹی نے جرمن قوم پرستی کو فروغ دیا۔
اس کے علاوہ یہود دشمنی کو بھی ہوا دی گئی ۔ ہٹلر اور نازی پارٹی یہ بھی سمجھتے تھے کہ معاہدہ ورسیلز وہ امن معاہدہ ہے جس سے پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا جرمنی کے ساتھ کھلی ناانصافی تھی جس کے تحت جرمنی سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ نقصانات کی تلافی کرے۔ ہٹلر جلد ہی کرشماتی لیڈر بن گیا اور پارٹی کے دیگر ارکان کو قائل کرنا شروع ہو گیا کہ جرمنی کے مسائل کا سبب یہودی اور مارکسٹ ہیں ۔ اس کے علاوہ اس نے یہ بھی پروپیگنڈا شروع کیا کہ جرمن آریا نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس کی برتری کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔
نازیوں نے پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کا ذمہ داریہودیوں کو قرار دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جرمنی کی معیشت پر بھی یہودیوں نے قبضہ کر رکھا ہے جس سے چھٹکارا ضروری ہے ہٹلر کو پانچ سال قید کی سزا بھی ہونی تھی لیکن وہ چھ ماہ سے بھی کم عرصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہا۔
اسی عرصے میں اس نے اپنی سیاسی خودنوشت میری جدوجہد سپرد قلم کی۔ قید سے رہائی کے بعد اس نے نازی پارٹی کی تعمیر نو شروع کی اور انتخابی عمل کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی۔
اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ نازی ازم کے اصولوں کے مطابق سیاسی مخالفت کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ سیاسی مخالفوں کو بُری طرح کچل دینا چاہیے۔
یعنی بربریت نازی ازم کے بنیادی نکات میںسے ایک تھی ۔ 1929ء کو جرمنی کی معاشی صورتحال سخت خراب ہو گئی اور بے روزگاری عروج کو پہنچ گئی۔
نازیوں نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور انتخابات جیتنا شروع کر دیے۔ 1932ء کے انتخابات میں انہوں نے پارلیمنٹ کی 608 نشستوں میں 230 نشستیں جیت لیں۔
جنوری 1933ء میں ہٹلر کو جرمنی کا چانسلر بنا دیا گیا اور اس کی نازی حکومت نے جلد ہی جرمنی کے لوگوں کے طرز حیات کے ہر پہلو کو کنٹرول کرنا شروع کردیا۔
انہوں نے تمام دوسری جماعتوں پر پابندی لگا دی۔ نازیوں نے جنوبی جرمنی میں حراستی کیمپ کھولا تاکہ اس میں سیاسی قیدیوں کو رکھا جا سکے۔ اس جگہ کا نام ڈیک ہائو تھا۔ ڈیک ہائو کو بعد میں موت کے کیمپ میں تبدیل کر دیا گیا جہاں بے شمار یہودی کم غذائیت، بیماریوں اور زیادہ کام کرنے کی وجہ سے موت کی وادی میں اتر گئے ۔ یہودیوں کے علاوہ کیمپ کے قیدیوں میں وہ لوگ بھی شامل تھےجو ہٹلر کے مطابق نئے جرمنی کے لئے بالکل غیر مناسب تھے۔
ان میں فنکار ، دانش ور ، خانہ بدوش ، ذہنی معذور اور ہم جنس پرست بھی تھے۔ ہٹلر نے حکومت سنبھالتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ ورسیلز کا معاہدہ ختم کر دیا ۔ اگرچہ ورسیلز کا معاہدہ واضح طور پر عوام کے حق رائے دہی کے اصولوں پر مبنی تھا لیکن ہٹلر نے نکتہ اٹھایا کہ اس معاہدے نے جرمن کو جرمن سے الگ کر دیا ہے لیکن جنگ کی وجہ سے آسٹریا اور چیکو سلوواکیہ جیسی نئی ریاستیں قائم ہو گئی ہیں ۔ جہاں جرمنی کے بہت لوگ رہتے ہیں۔
1930ء کے آخر تک ہٹلر نے جنگ کے بعد وجود میں آنے والے بین الاقوامی نظام کو آہستہ آہستہ کمزور کرنا شروع کر دیا۔ 1933ء میں اس نے لیگ آف نیشنز سے جرمنی کو الگ کر لیا۔
پھر اس کے بعد جرمنی کی مسلح افواج کو بڑھانا شروع کر دیا اور اس میں اس حد سے زیادہ اضافہ کر دیا جتنا کہ ورسیلز کے معاہدے میں اجازت دی گئی تھی۔ 1936ء میں ہٹلر نے جرمن رہنی لینڈپر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ 1938ء میں آسڑیا کا جرمنی کے ساتھ الحاق کر دیا اور 1939ء میں چیکو سلواکیہ پر حملہ کر دیا۔
جب نازی جرمنی ، پولینڈ کی طرف بڑھا تو برطانیہ اور فرانس نے پولینڈ کی سلامتی کی ضمانت دیتے ہوئے جارحیت کا مظاہرہ کیا۔ بعد ازاں جرمنی نے یکم ستمبر 1939ء کو جب پولینڈ پر حملہ کر دیا تو اس کے بعد برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔
نازی پارٹی کی چھ سالہ خارجہ پالیسی نے جنگ عظیم دوم کے شعلے بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ جنگ عظیم 1939ء میں شروع ہوئی اور 1945ء میں جا کر اس کا اختتام ہوا ۔ ایڈوولف ہٹلر کا واحد مقصد یورپ پر غلبہ حاصل کرنا تھا۔
پولینڈ کو فتح کرنے کے بعد ہٹلر نے برطانیہ اور فرانس پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جوں جوں جنگ پھیلتی گئی نازی پارٹی نے جاپان اور اٹلی کے ساتھ اتحاد بنا نا شروع کردیا۔ 1940ء میں تین ملکوں کا آپس میں معاہدہ ہوا یعنی جاپان ، اٹلی اور جرمنی۔ 1939ء میں نازیوں کا سابق سوویت یونین کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہوا تھا اور جرمنی نے اس معاہدے کا احترام کیا لیکن 1941ء میں جرمنی نے سوویت یونین پر فوجی حملے شروع کر دئیے۔
بعد میں بڑی خوفناک لڑائی ہوئی اور نازی فوجوں نے اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کے لئے زبردست کوشش کی اور وہ خواہش دنیا کی سب سے بڑی کیمونسٹ طاقت کو کچلنا تھا۔ 1941ء میں جب امریکہ جنگ عظیم دوم میں کودا تو جرمنی شمالی افریقا، اٹلی، فرانس اور بلقان میں برسرِ پیکار تھا۔
دوسری طرف وہ سابق سوویت یونین کی طرف سے جوابی حملوں سے بھی نبردآزما تھا۔ جنگ کے شروع میں ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی یورپ پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے لڑ رہے تھے اور پانچ سال بعد وہ اپنے وجود کے لئے ہاتھ پائوں ما ررہے تھے۔ 1933میں نازیوں نے یہودیوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کے لئے اقدامات شروع کئے۔
یہ وہ یہودی تھے جو جرمنی میں رہائش پذیر تھے ۔ 1938ء کے آخر میں یہودیوں پر جرمنی نے عوامی جگہوں پر جانے کی پابندی عائد کر دی ۔ جنگ کے دوران نازیوں کایہودیوں کے خلاف کارروائیوںمیں اضافہ ہوگیا ۔پولینڈ پر قبضے کے بعد جرمن فوجوں نے ہزاروں کی تعداد میں پولینڈ کے یہودیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔ کئی یہودیوں کوبھوکا رکھ کر مار دیا گیا۔
اس کے علاوہ کئی اور یہودیوں کو پولینڈ کے کئی موت کے کیمپوں میں بھیج دیا گیا، جہاں انہیں یا تو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا یا پھر انہیں غلام بنا لیا گیا۔ 1941 میں جب جرمنی نے سابق سوویت یونین پر حملہ کیا تو نازی دستوں نے لاکھوں یہودیوں کو روس کے مغربی علاقوں میں مشین گنوں سے ہلاک کر ڈالا۔
1942 کے شروع میں نازی پارٹی نے ’’یہودی مسئلے‘‘ کا حتمی حل نکالا۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک منصوبے کے تحت یورپ کے تمام یہودیوں کو قتل کر دیا جائے۔ 1942 اور 1943 میں مقبوضہ مغربی ممالک فرانس اور بیلجیم کو موت کے کیمپوں میں بھیج دیا گیا جو یورپ میں جگہ جگہ قائم ہو گئے تھے۔
جرمنی نے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا وہاں یہودیوں کا قتل جنگ کے آخری مرحلے میں رُک گیا۔ جب ہٹلر نے اپریل 1945 میں خودکشی کی، اس وقت تک 60لاکھ یہودی ہلاک ہو چکے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگِ عظیم دوم کے آغاز کی سب سے بڑی وجہ 1933 میں ایڈولف ہٹلر کا جرمنی میں اقتدر میں آنا تھا۔ نسل پرستی کے خمار میں ڈوبے ہوئے اس شخص نے جب یہ اعلان کیا کہ جرمن آریاؤں کی نسل ہے اور یہ سب سے برتر ہے۔ پھر یہ کہ آریاؤں کو ہی ہر جگہ حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔ نازی پارٹی اور ہٹلر یہ بھول گئے تھے کہ دنیا کو مکمل طور پر کوئی بھی فتح نہیں کر سکا۔
سابق سوویت یونین کے شہر سٹالن گراڈ میں خوفناک لڑی گئی جہاں لاکھوں روسی مردوں، عورتوں اور بچوں نے جان کی قربانی دی۔ اس کے علاوہ 1920 کی دہائی میں اٹلی کے فاشزم اور جاپان کی فوجی برتری کے خواب اور 1930 کی دہائی میں چین پر قبضے کی وجہ سے بھی جنگ عظیم دوم کے شعلے بھڑکنا شروع ہو گئے لیکن فوری وجہ کیا بنی؟
وہ جرمنی کا پولینڈ پر حملہ تھا جو یکم ستمبر 1939 کو کیا گیا اور برطانیہ اور فرانس نے 3ستمبر 1939 کو جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔
اگر غور سے جائزہ لیا جائے تو ورسیلز کے معاہدے نے جنگ عظیم دوم کی راہ ہموار کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس معاہدے کی وجہ سے جرمنی کو 1918 میں شکست ا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس معاہدے کی وجہ سے جرمنی کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔
اس کے علاوہ نازیوں نے توسیع پسندی کا پراپیگنڈا شروع کر دیا، اور اسے نازی ازم کا اہم اصول قراردیا۔ ادھر اٹلی کے آمر مسولینی نے بھی ایتھوپیا پر حملہ کردیا۔ وہ اپنی سلطنت افریقہ تک پھیلانا چاہتا تھا اور اس کی بھی تمام پالیسیاں نازی ازم کے اصولوں کے عین مطابق تھیں۔ لیگ آف نیشنز نے اٹلی کو جارح قرار دے دیا تیل کی فروخت پر پابندیاں عائد کر دیں جن کا کچھ اثر نہ ہوا۔ 7مئی کو اٹلی نے ایتھوپیا سے الحاق کر لیا اور ایتھوپیا اریٹیریا اور صومالی لینڈ کو ضم کر لیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب جرمنی نے پولینڈ پر قبضہ کیا تو 17ستمبر 1939 کو روس نے بھی پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ پولینڈ دونوں طرف سے حملوں کی زد میں تھا جس کی وہ تاب نہ لا سکا۔ سابق سوویت یونین نے پولینڈ پر کنٹرول کو تقسیم کر دیا۔ اس کے بعد جوزف سٹالن کی فوجوں نے بالئک ریاستوں (اسٹونیا، لیٹویا اور لتھونیا) پر قبضہ کرنے کی ٹھانی۔
ان فوجوں نے فن لینڈ کو شکست دے دی جو مزاحمت کر رہا تھا۔ پولینڈ پر حملے کی وجہ سے چھ ماہ تک جرمنی کی طرف سے کوئی کارروائی نہ کی گئی اور اتحادی بھی خاموش رہے جس پر میڈیا نے اس جنگ کو جعلی قرار دے دیا۔ تاہم برطانیہ اور جرمنی کے درمیان بڑی سخت بحری جنگ ہوئی اور اس میں برطانیہ کو تجارتی حوالے سے بہت نقصان اٹھانا پڑا۔
9 اپریل 1940ء کو جرمنی نے ناروے پر بھی حملہ کر دیا اور ڈنمارک پر قبضہ کر لیا اور ایک خطرناک جنگ شروع ہو گئی۔ 10 مئی کو جرمن فوجوں نے بڑی جلدی جلدی بیلجیم اور ہالینڈ پر حملے کیے۔
یہ حملے بالکل اچانک کئے گئے اسی لئے انہیں بلٹز کریگ (Blitz kreig) کہا جاتا ہے۔ تین دن بعد شہر کی فوجیں سویڈن میں فرانسیسی فوجوں سے جا ٹکرائیں جو میگی ناٹ لائن کے شمال میں موجود تھیں۔
یہ لائن جنگ عظیم اول کے بعد بنائی گئی جو بڑی مضبوط دیواروں پر مشتمل تھی تاکہ دفاع ناقابل تسخیر ہو جائے۔ اصل میں ہوا یوں تھا کہ جرمنوں نے ٹینکوں اور جہازوں کے ذریعے اس لائن پر حملہ کردیا تھا جس سے یہ نتیجہ نکلا کہ یہ لائن بیکار ہو گئی۔ سمندر کو برطانوی بحریہ کے جوانوں سے خالی کرا لیا گیا جبکہ جنوب میں فرانسیسی فوجوں نے معمولی مزاحمت کی۔
جب فرانس شکست کے دہانے پر تھا تو اٹلی کا آمر مسولینی ہٹلر سے معاہدے کے تحت متحرک ہو گیا اور اس نے فرانس اور برطانیہ کے خلاف 10جون کو اعلانِ جنگ کر دیا۔
14 جون کو جرمن فوجیں پیرس میں داخل ہو گئیں۔ مارشل فلپ پیٹن (جنگِ عظیم اول میں فرانس کا ہیرو) نے نئی حکومت بنا لی۔ بعد میں فرانس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک حصہ میں بیٹن کی حکومت تھی۔
ایڈولف ہٹلر نے اب اپنی توجہ برطانیہ کی طرف مبذول کی۔ زمینی اور سمندری حملوں کی راہ ہموار کرنے کیلئے جرمن طیاروں نے 1940ء کے موسم گرما میں برطانیہ پر زبردست بمباری کی۔ صرف لندن میں آٹھ دفعہ رات کے وقت ہوائی حملے کیے گئے۔
اس کے علاوہ دوسرے صنعتی مراکز کوبھی حملوں کا نشانہ بنایا گیا جس میں بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔ جرمنی نے ان حملوں کو آپریشن سی لائن (Operation sea lion) قرار دیا۔
اگرچہ برطانیہ نے اس پر قابو پا لیا لیکن معاشی طور پر اسے زبردست نقصان پہنچا۔ یہی وجہ تھی کہ جنگ کے خاتمے پر جب برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے اپنے عوام کو یہ خوشخبری سنائی کہ وہ جنگ جیت گئے ہیں تو برطانوی عوام نے کسی پرجوش ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ وہ روٹی، انڈے اورگوشت مانگ رہے تھے۔ بہرحال یہ تو سب اسی جنگ کا نتیجہ تھا جس کا آغاز نازیوں نے کیا۔
16 دسمبر 1944ء کو جرمنی نے مغربی محاذ پر آخری کوشش کی کہ وہ جنگ میں سرخرو ہو جائے۔ اس نے فرانسیسی اور جرمن سرحد پر حملہ کرنے کے لئے اپنے باقی ماندہ ذخائر بھی جنگ میں جھونک دیئے۔
اس کا مقصد یہ تھا کہ مغربی اتحادیوں کو تقسیم کردیا جائے اور اتحادی فوجوں کا محاصرہ کر لیا جائے۔ جنوری تک یہ حملہ پسپا ہوا اور اس سے کوئی مقصد حاصل نہ ہو سکا۔ اٹلی میں مغربی اتحادی، جرمنی کی دفاعی لائن پر کوئی کارروائی نہ کر سکے اور ایک ڈیڈ لاک کی صورت حال پیدا ہو گئی جنوری 1945ء میں روسیوں نے پولینڈ پر حملہ کیا اور مشرقی پروشیا پر بھی کنٹرول حاصل کرلیا۔ 4فروری کو روسی، برطانیہ اور امریکی لیڈر یالٹا کانفرنس کیلئے اکٹھے ہوئے۔
جاپان جرمنی اور اٹلی کا اتحادی تھا۔ اس نے 1941ء میں امریکی بحری اڈے پرل ہاربر پر حملہ کر کے امریکہ کو بھی جنگ عظیم دوم میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ جاپان نے کلکتہ تک بمباری کی۔
روس اور پولینڈ کی فوجوں نے اپریل کے آخر میں برلن پر قبضہ کرلیا۔ اٹلی میںجرمن فوجوں نے 29اپریل کو ہتھیار پھینک دیئے۔ 30 اپریل کو پارلیمنٹ پر قبضہ کر لیا گیا جس سے یہ اشارہ مل گیا کہ نازی جرمنی کو فوجی شکست ہو چکی ہے۔ اس دوران قیادت میں کئی تبدیلیاں آئیں۔ 12 اپریل کو امریکی صدر روز ویلٹ کا انتقال ہو گیا اور ان کی جگہ ہیری ایس ٹرومین نے لی۔
اٹلی میں مسولینی اپنی جان بچانے کے لئے فن لینڈ بھاگ رہا تھا لیکن اٹلی کے لوگوں نے اسے گولی مار دی اور پھر اسے پھانسی دے دی گئی۔ یہاں مسولینی کا ذکر بھی ضروری ہے کہ یہ شخص جو سوشلسٹ تھا اور ایک سوشلسٹ اخبار کا ایڈیٹر تھا، وہ کیسے فاشسٹ ہو گیا اور اس نے ہٹلر کے نازی ازم کو کیوں قبول کیا؟ اس کی وجہ صرف اور صرف دنیا پر غلبے کی آرزو تھی۔ مسولینی کی کایا کلپ کیسے ہوئی، یہ بھی ایک پراسرار داستان ہے۔
اسی کے دور میں لیبیا کے مجاہد آزادی عمر مختا رکو پھانسی دی گئی۔ لیبیا سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔ جس پر اٹلی نے قبضہ کر لیا تھا۔ مسولینی نے بھی اپنے سیاسی مخالفوں کو بربریت کا نشانہ بنایا۔ لیکن کیا انجام ہوا؟
دنیا فتح کرنے کے خواب دیکھنے والے یہ بھول گئے کہ اس سے پہلے بھی کئی لوگوں نے دنیا پر حکومت کے خواب دیکھے تھے جن میں سکندر اعظم اور نپولین کے نام لیے جا سکتے ہیں لیکن ان کے خواب بھی چکنا چور ہو گئے۔ نپولین جب واٹرلو میں شکست کھا گیا تو انگریزوں نے اسے گرفتار کر کے ایک ایسے جزیرے میں قید کر دیا جہاں کی آب و ہوا اور پانی سخت مضر صحت تھے۔ یہی وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے نپولین کئی امراض کا شکار ہو گیا اور آخر موت کی وادی میں اتر گیا۔ سکندر اعظم 32 برس کی عمر میں اس د ارِ فانی سے کوچ کر گیا اور یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ جب سکندر اس دنیا سے گیا تو اس کے دونوں ہاتھ خالی تھے۔ کیا ہٹلر اور مسولینی کو ان دونوں ’’فاتحین‘‘ کے انجام سے کوئی عبرت حاصل نہ ہوئی؟
یہ بالکل حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو برباد کرنا ہوتا ہے اس سے عقل و فراست چھین لیتا ہے۔ ہٹلر اور اُس کے اتحادیوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ اندازہ لگائیں کہ جس روس کے ساتھ اس نے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا تھا لیکن 1941 میں اس پر چڑھ دوڑا۔
سٹالن گراڈ میں جو لڑائی لڑی گئی اس پر کئی فلمیں بن چکی ہیں۔ یہ ماننا پڑے گا کہ اس جنگ کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے روسی لیڈر جوزف سٹالن نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔
روسی عوام نے بھی نازی ازم کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور قربانیوں کی لازوال داستان رقم کر دی۔ یہ الگ بات ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک سرمایہ دارانہ بلاک اور دوسرا کمیونسٹ بلاک۔ نازی جرمنی کے بھی دو حصے ہو گئے۔ ایک مغربی جرمنی اور دوسرا مشرقی جرمنی۔
دونوں کے بیچ دیوارِ برلن تعمیر کی گئی تاکہ مشرقی جرمنی کے لوگ مغربی جرمنی نہ جا سکے۔ مشرقی جرمنی کمیونسٹ بلاک میں چلا گیا۔ 1989میں یہ دیوار ٹوٹ گئی اور جرمنی کے دونوں حصے متحد ہو گئے۔ کیا ملا جرمنی کو اور کیا ملا ایڈولف ہٹلر کو۔ وہ ہٹلر جو آریا نسل کی برتری کیلئے پوری دنیا کوزیر کرنے پر تلا ہوا تھا آخر شکست سے دوچار ہوا اور پھر 1945 میں اس نے خودکشی کرلی۔ اس کی موت کے بعد جرمنی میں نازی پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔ وہ جرمن قوم جو ایک دور میں ایڈولف ہٹلر کو اپنا ہیرو مانتی تھی اور اس کی خود نوشت ’’میری جدوجہد‘‘ کو نازی ازم کی بائبل کہا جاتا تھا آخر کار ذلت کے اندھے کنوئیں میں جا گرا۔
اب وہ پوری دنیا میں نفرت کی علامت ہے۔ اس شخص کے نازی ازم نے دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ ہٹلر کے ذہن میں ایک اور بات بھی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح برطانیہ کو شکست دے کر اس کی نوآبادیوں کو جرمنی کی نوآبادیاں بنا لے۔
آخر ہٹلر اور اس کے اتحادی یہ جنگ جیت جاتے تو سوچئے برصغیر کا کیا حال ہوتا۔ اس جنگ نے برطانیہ کو بھی بہت کمزور کر دیا۔ ماہرین سیاسیات کی رائے میں برطانیہ کو برصغیر پاک و ہند اس لئے چھوڑنا پڑا کہ اب اس میں اتنی سکت نہ تھی کہ یہاں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کا مقابلہ کر سکے۔
بہرحال بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی ہوش کے ناخن لینا چائیں۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ کشمیر میں نازی ازم کے اصولوں کو اپنا کر وہ مظلوم کشمیریوں کا خون بہا کر اپنے مقاصد حاصل کر لے گا تووہ یقینا احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ دنیا نازیوں اور نازی ازم کو مسترد کر چکی ہے اور اب کوئی بھی نازیوں کی تاریخ دہرا نہیں سکتا۔ اور اگر کسی نے کوشش بھی کی تو ذلت آمیز شکست اس کا مقدر ہوگی۔
نازیوں نے سفارکیت کے بڑے عجیب طریقے ایجاد کئے تھے۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین اور بے شمار یہودیوں کوگیس چیمبر میں ڈال دیا ۔ ان گنت لوگوں کو موت کے کیمپوں میں رکھ کر بھوکا مار یا۔ ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی نے 60 لاکھ یہودیوں کو موت کے گھاٹ تو اتارا تھا لیکن ان کاٹارگٹ صرف یہودی نہیں تھے بلکہ انہوں نے 50 لاکھ ان لوگوں کا بھی خون کیا جو یہودی نہیں تھے۔ ان میں خانہ بدوش، جیووا کے گواہ، ہم جنس پرست، سیاہ فام، جسمانی اور ذہنی معذور، نازیوں کے سیاسی مخالفین جن میں کمیونسٹ اور سوشل ڈیموکریٹ بھی شامل تھے۔ ان کے علاوہ وہ مذہبی لوگ جو نازیوں کی پالیسیوں کے مخالف تھے، مزاحمت کرنے والے لوگ، جنگی، قیدی، فنکاروں کی ایک بڑی تعداد جو ہٹلر کی پالیسیوں کی مذمت کرتی تھی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنے مخالفین کو اس بے دردی سے موت کی وادی میں اتارنا کیوں نازی پارٹی اورایڈولف ہٹلر کے ذہن میں آیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ نازی ازم کی بنیاد فاشزم پر ہے اور دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ بلکہ نازی ازم اس سے ایک قدم آگے ہے کیونکہ اس میں نسلی پہلو بھی شامل تھا۔ یعنی جرمنوں کی نسل سب سے بڑھ کر ہے اور اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ دوسری وجہ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست ہوئی تھی جس سے ہٹلر کو بہت دکھ پہنچا تھا۔ یہودیوں سے اس کی نفرت کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست میں یہودیوں نے ہم کردار ادا کیا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ جرمنی کی معیشت پر یہودی چھائے ہوئے تھے۔ یہودیوں کے علاوہ دوسری قوموں کے لوگوں کو بیدردی سے قتل کرنا بھی نازی ازم کا حصہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جمہوریت سے نفرت کرتے تھے۔ کیمونسٹوں سے ان کی مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ طبقاتی تضاد کو نہیں مانتے تھے اور سرمایہ کاری نظام کے حامی تھے۔ نازی خود سامراجی طاقت بننا چاہتے تھے۔ سٹالن نے جو کتاب لکھی اس کا عنوان بھی یہی تھا ’’سامراجیت سرمایہ داری نظام کا اگلا قدم‘‘
تاریخ میں نازیوں کے ہاتھ 60 لاکھ یہودیوں کی ہلاکت کو ہولو کاسٹ (Holo cast) کہا جاتا ہے ناززی دراصل نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی (این ایس ڈی اے پی) کا مخفف تھا۔ نازیوں نے جو موت کے کیمپ بنا رکھے تھے، بے شمار لوگ ان میں مارے گئے اور انہیں کیمپ کیٗ گارڈز نے ہلاک کیا۔
نازیوں نے جو کیمپس بنا رکھے تھے ان کی بھی مختلف اقسام تھیں ان میں جبری مشقت کے کیمپس،موت کے کیمپس اور جنگی قیدیوں کے کیمپس خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ان کیمپس میں لوگوں کو اذیت ناک مراحل سے گزارنا پڑتا تھا۔موت کے چھ کیمپس پولینڈ میں تعمیر کیے گئے ۔ان موت کی فیکٹریوں میں آشوز ،برک نیو،ترے بلنکا، بلسنیریک، سوبی، لبلن اور کیلمنو شامل تھیں۔
ستمبر 1941ء میں ٹرکوں کو لوگوں سے بھر دیا جاتا تھا اور ان میں کا ربن مونو اکسائڈ گیس چھوڑ دی جاتی تھی جس سے وہ لوگ ہلاک ہو جاتے تھے ۔دسمبر 7،1941ء کو’’نائٹ اینڈ فوگ‘‘آرڈر جاری ہوا۔جس کے تحت فوجی عدالتوں کو اجازت دی گئی کہ وہ مزاحمت کاروں کو موت کی سزا دیں۔نائٹ اینڈ فوگ(رات اور دھند)میں بے شمار لوگ غائب کر دیئے گئے ۔ موت کے کیمپوں میں 27لاکھ یہودیوں کو ہلاک کیا گیا۔یہ قتل بڑے خفیہ طریقے سے کیے گئے۔جرمنوں نے اپنے شہریوں سے اصل منصوبوں کو چھپا یا اور دعویٰ کیا کہ یہودیوں کو مشرق میں دوبارہ آباد کیا جا رہا ہے۔ناریوں کی بربریت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ ان کے مقبوضہ علاقوں میں اگر ایک جرمن بھی موت سے ہمکنا ہوا تو وہ اس کے بدلے میں 100شہریوں کو ہلاک کریں گے۔
نازیوں نے مجموعی طور پر یوگوسلاویہ، چیکوسلوواکیہ،یونان اور فرانس میں لاکھوں افراد کو ذبح کیا اور پھر پولینڈ اور سابق سودیت یونین میں بھی ان گنت افراد کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا۔
جہاں تک موت کے کیمپس (Death camps)کا تعلق ہے تو یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ کروشیا(جو جرمنی کی کٹھ پتلی ریاست تھا)میں بھی موت کے کیمپس تعمیر کیے گئے جہاں 1941سے1945تک سربوں،یہودیوں، کروشیا اور بوسنیا کے مسلمان سیاسی مخالفوں کا قتل عام کیا گیا۔جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ نازیوں کے تشدد میں یہ چیزبھی شامل تھی کہ وہ لوگوں کو بھوکا ماد دیتے تھے ۔موت کے کیمپوں میں کئی یہودی بچوں کو بھی بھیجا گیا۔
قیدیوں کو مارنے کا نازیوں نے ایک اور سفاک طریقہ ڈھونڈ رکھا تھا۔وہ انہیں کیمپوں کے نزدیک گہرے کھنڈرات میں پھینک دیتے تھے۔بے شمار قیدی نفسیاتی مریض بن گئے اور انہوں نے خود اپنی جان کا خاتمہ کرلیا۔کیمپ کے گارڈز نے گولیاںمار کر بے شمار لوگوں کوقتل کیا۔کئی لوگوں کو خوفناک تشدد سے ہلاک کیا گیااور ان گنت لوگوں کو بھوکا ماردیا گیا۔ یہ ان ہلاکتوں سے الگ ہیں جو گیس کی وجہ سے ہوئی تھیں۔ نازیوں نے بربریت اور سفاکیت کی ایک نہیں،کئی مثالیں چھوڑی ہیں جو تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔