کابل: (ویب ڈیسک) افغانستان میں امن معاہدے کے باوجود پر تشدد کارروائیاں جاری ہیں، گردیز میں بم دھماکے سے 5 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق افغانستان کے شہر گردیز میں عدالت کے قریب دھماکا خیز مواد سے بھرے ٹرک کو دھماکے سے اڑادیا گیا جسکے نتیجے میں 5 افراد ہلاک ہوئے جبکہ اس کی ذمہ داری طالبان جنگجوؤں کی جانب سے قبول کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔
واضح رہے کہ افغانستان میں یہ حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب دو روز قبل افغانستان میں پولیس اہلکار کے جنازے اور میٹرنٹی ہوم پر ہونے والے حملوں میں خواتین اور نومولود بچوں سمیت 50 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق افغان وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آرائیں کا کہنا تھا کہ گردیز شہر کے گنجان آباد علاقے میں فوجی عدالت کے قریب ایک کار بم دھماکا ہوا، جس میں درجنوں افراد کے ہلاک و زخمی ہونے کا خدشہ ہے۔
طارق آرائیں نے اس حملے کی ذمہ داری طالبان اور کالعدم لشکر طیبہ کے اتحادی حقانی نیٹ ورک پر لگایا، تاہم یہ گروپ بہت کم حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ گردیز شہر میں ہونے والے دھماکے میں دس افراد مارے گئے ہیں۔ اس دوران بہت سارے زخمی بھی ہوئے ہیں۔
ادھر پکتیا صوبے جہاں گردیز شہر موجود ہے، وہاں کہ فوجی ترجمان ایمل خان مہمند کا کہنا تھا کہ دھماکا بارودی مواد سے بھرے ٹرک کے ذریعے کیا گیا۔ اس دھماکے کے نتیجے میں 5 افراد ہلاک جبکہ 14 زخمی ہوگئے۔
چند روز قبل کابل میں میٹرنٹی ہسپتال میں مسلح افراد کے حملے میں نومولود، نرسز اور ماؤں سمیت 24 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ اسی روز مشرقی علاقے ننگرہار میں جنازے میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں 32 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ اس کی ذمہ داری داعش کی جانب سے قبول کی گئی تھی۔
افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے ان حملوں کی مذمت کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ دفاعی انداز کے بجائے جارحانہ انداز اپنایا جائے۔
علاوہ ازیں طالبان کی جانب سے ان حملوں میں کسی بھی طرح کے ملوث ہونے کی ترتید کی گئی تھی لیکن حکومت کی جانب نے گروپ پر الزام لگایا گیا کہ وہ ایسے ماحول کو فروغ دے رہا جس سے دہشت گردی پروان چڑھتی ہے۔
واضح رہے کہ افغان صدر کی جانب سے فوج کو جارحانہ انداز اپنانے کا کہنے کے بعد طالبان نے بھی کہا تھا کہ وہ افغان سیکیورٹی فورسز کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
مسلح دہشت گرد گروپوں کے حملے میں خواتین اور نومولود بچوں کی موت کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے اپنی فوج کو دہشت گرد گروپوں کے خلاف جارحانہ انداز میں کارروائی کا حکم دیا تھا۔
یاد رہے کہ رواں سال 29 فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان تاریخی معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکا اور غیر ملکی افواج پر حملے نہیں کریں گے اور قیدیوں کے تبادلے کے بدلے کابل انتظامیہ سے امن مذاکرات شروع کریں گے۔
اس کے بدلے امریکا اور غیر ملکی افواج نے 14 ماہ میں افغان سرزمین چھوڑنے کا وعدہ کیا تھا۔
طالبان اور امریکا میں معاہدہ ہوا تھا کہ امریکی افواج طالبان پر حملہ نہیں کریں گی لیکن اگر افغان فورسز پر حملہ کیا گیا تو وہ طالبان پر حملے کا حق رکھتے ہیں۔
طالبان کی جانب سے غیر ملکی افواج پر حملوں میں نمایاں کمی آئی لیکن حالیہ عرصے میں طالبان کی جانب سے افغان سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں کئی گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور اوسطاً روزانہ 55 حملے کیے جا رہے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال 29 فروری کو معاہدے پر دستخط کے بعد سے اب تک طالبان ساڑھے 4 ہزار سے زائد حملے کر چکے ہیں اور اس میں سب سے زیادہ وہ صوبے متاثرہ ہوئے ہیں جہاں اب تک کورونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
دوسری جانب دونوں فریقین میں قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ بھی التوا کا شکار ہے کیونکہ افغان صدر اشرف غنی ایک ساتھ پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کو تیار نہیں۔ اب تک افغان حکومت ایک ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کر چکی ہے جبکہ اس کے جواب میں طالبان نے 100 حکومتی قیدیوں کو رہا کیا ہے۔