کابل: (ویب ڈیسک) افغان حکومت سے ممکنہ مذاکرات کے لیے افغان طالبان نے صفوں میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے سابق امیر افغان طالبان ملا محمد عمر کے بیٹے ملا محمد یعقوب کو ملٹری ونگ کا سربراہ بنا دیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے طالبان حکام نے نام نہ ظاہر کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے طالبان نے اپنی مذاکراتی ٹیم میں طاقتور شخصیات کو شامل کیا ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ 20 رکنی مذاکراتی ٹیم میں مزید چار ارکان کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ نئی مذاکراتی ٹیم میں ملا ہیبت اللہ کے قریبی ساتھی اور اہم رہنما عبدالحکیم کے ساتھ طالبان حکومت میں چیف جسٹس کے طور پر تعینات رہنے والے مولوی ثاقب بھی شامل ہیں۔
طالبان ذرائع نے اے پی کو بتایا کہ یہ رد و بدل طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ کی نگرانی میں ہوا ہے جس کا مقصد تحریک کے فوجی اور سیاسی بازؤں پر اپنی گرفت مضبوط کرنا ہے۔
ادھر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے اچھی خبر ہے اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے طالبان امن معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ملا محمد عمر کے بیٹے محمد یعقوب افغان طالبان کے عسکری چیف مقرر
واشنگٹن میں موجود یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس کے ایشیا پروگرام کے نائب صدر اینڈریو وائلڈر کا کہنا ہے کہ میں کہوں گا کہ یہ ایک مثبت پیشرفت ہے کیونکہ طالبان ایک ایسا وفد تیار کر رہے ہیں جو زیادہ تجربہ کار اور وسیع البنیاد ہے۔
افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ امریکا نے معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت فوجیوں کی تعداد کم کرنے اور پانچ فوجی اڈے خالی کرنے کے وعدے پر عمل کیا ہے۔ ہم قیدیوں کی رہائی، تشدد کم کرنے اور بین الاافغان مذاکرات پر زور دیں گے۔
انہوں نے افغان سکیورٹی فورسز پر حملوں کی مذمت کی اور یہ بھی کہا تھا کہ طالبان نے امریکی اور نیٹو فورسز پر کوئی حملہ نہیں کیا ہے۔
دوسری طرف طالبان نے امریکی فوجیوں کی تعداد کم کرنے کے عمل کا خیرمقدم کیا لیکن ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا کہ امریکا نے افغان حکومت کی حمایت میں جن علاقوں میں جنگ نہیں ہو رہی وہاں مسلسل بمباری کی اور حملے کیے ہیں۔
طالبان نے امریکی پائلٹس پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ انہوں نے گذشتہ دس روز میں عام شہریوں اور انفراسٹرکچر پر بمباری کی۔
طالبان نے کہا ہے کہ یہ سب معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور جان بوجھ کر طالبان کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ بڑے حملے کریں۔
اے پی کے مطابق مئی میں ملا یعقوب کی تعیناتی کے بعد طالبان نے افغان فورسز پر حملوں میں اضافہ کیا ہے جس کا مقصد مذاکرات میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنا ہے۔
ملا یعقوب پہلے ہی طالبان کے ڈپٹی ہیڈ تھے اور مجلس شوریٰ سے مشورہ کیے بغیر ان کی بطور ملٹری چیف تعیناتی سے شوریٰ کے اراکین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، تاہم طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ ملا یعقوب نے شوریٰ سے ملاقات کر کے اختلاف رائے رکھنے والوں کا اعتماد حاصل کیا ہے۔
طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں لیکن امید کی جا رہی ہے جولائی کے آخر میں بین الافغان مذاکرات شروع ہو جائیں گے۔
اقوام متحدہ نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ افغانستان میں موجود مختلف سیاسی اور متحارب دھڑوں کے درمیان مذاکرات رواں ماہ شروع ہوں گے۔
ان مذاکرات کی میزبانی کے لیے دنیا کے کئی ممالک نے حامی بھری ہے لیکن طالبان اور افغان حکومت کا کہنا ہے مذاکرات کا پہلا دور دوحہ میں ہو گا جہاں طالبان کا سیاسی دفتر موجود ہے۔