قاہرہ: (ویب ڈیسک) لیبیا میں جاری جنگ کے بعد مصری پارلیمان نے ہمسایہ ملک میں ممکنہ فوجی مداخلت کی منظوری دیدی ہے۔
یاد رہے کہ مصری صدر سیسی نے لیبیا میں فوجی مداخلت کی پہلے ہی دھمکی دی تھی اور چونکہ ترکی اور مصر، لیبیا میں دو متحارب گروہوں کے حامی ہیں، اس اقدام سے دونوں میں ٹکراؤ کے مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مصر کے صدر عبد الفتح السیسی نے چند روز قبل ہی لیبیا میں ترکی کے حمایت یافتہ فورسز کے خلاف فوجی مداخلت کی دھمکی دی تھی اور مصری پارلیمان نے بیرون ملک فوج کی تعیناتی کو منظور ی دے دی۔
مصری ایوان نمائندگان میں صدر السیسی کے حامیوں کی اکثریت ہے جس نے بند کمرے میں ہونے والی ایک میٹنگ کے بعد کہا ہے کہ ملک کی مغربی سرحد پر جرائم پیشہ ملیشیا اور بیرونی دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے فوج کو تعینات کیا جا سکتا ہے۔ بیان میں لیبیا کا نام نہیں لیا گیا ہے تاہم کہا گیا کہ فوج مصر کی قومی سلامتی کا دفاع کرے گی۔
خبر رساں ادارے کے مطابق لیبیا میں ایک طرح سے خانہ جنگی کا ماحول ہے اور اس بالواسطہ جنگ میں ترکی ایک دھڑے کی حمایت کرتا ہے تو مصر دوسرے گروہ کی اور غالب امکان اس بات کا ہے کہ السیسی کے اس قدم سے ترکی اور مصر کے درمیان براہ راست ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوگی۔
مصر کی مغربی ریگستانی سرحد لیبیا سے ملتی ہے اور صدر السیسی نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اگر مصر کو قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ دفاعی نکتہ نظر سے اہمیت کا حامل ساحلی شہر سیرت سرخ لائن ہے اور اگر لیبیا کے حکومتی فورسز کی جانب سے اس شہر پر حملہ ہوا تو پھر مصر فوجی مداخلت کرے گا۔
خبر رساں ادارے کے مطابق لیبیا میں دو متوازی حکومتیں قائم ہیں۔ بڑے قومی اتحاد (جی این او) کی حکومت کو بین الاقوامی حمایت حاصل ہے جبکہ خلیفہ حفتر کی قیادت میں لیبیا کی نیشنل آرمی (ایل این اے) کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا تاہم اسے روس، متحدہ عرب امارات اور مصر کی حمایت حاصل ہے۔
یاد رہے کہ 2011 میں جب نیٹو کی مداخلت سے برسوں اقتدار میں رہنے والے کرنل محمد قذافی کی حکومت کا خاتمہ ہوا تب سے لیبیا میں خانہ جنگی کا ماحول ہے۔ تیل سے مالا مال اس ملک پر ایک طرف اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت ہے تو دوسری جانب جنگی سردار خلیفہ حفتر کی نیشنل لیبیئن آرمی (ایل این اے) ہے جو اس ملک پر اپنا کنٹرول چاہتی ہے۔ فریقین میں کافی دنوں سے لڑائی جاری ہے۔
ترکی لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کا حامی ہے جسے قطر اور اٹلی کی بھی حمایت حاصل ہے جبکہ مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور روس خلیفہ حفتر کی حمایت کرتے ہیں۔
خلیفہ حفتر اپنی فوجی طاقت کی مدد سے لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کے قریب تک پہنچ گئے تھے لیکن ترکی نے حکومت کی مدد کی اور اس نے اس ملیشیاء کے چھکّے چھڑا دیے اور اس طرح خلیفہ حفتر کو ایک طرح سے منہ کی کھانی پڑی۔
طرابلس پر دوبارہ مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد حکومتی افواج نے خلیفہ حفتر کی ملیشیا کو مشرقی شہر سیرت تک پیچھے دھکیل دیا ہے۔ یہ شہر کرنل قذافی کا آبائی شہر ہے جو مصر کی سرحد سے تقریبا آٹھ سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور لیبیا کے قیمتی تیل کی سپلائی کا اہم ذریعہ مانا جاتا ہے۔
مصری پارلیمان میں اس معاملے پر ووٹنگ سے قبل مصر کے صدارتی دفتر نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ صدر عبدالفتاح السیسی نے اس معاملے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بات چیت کی ہے اور اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ لیبیا میں سکیورٹی کی صورت حال کو مزید خراب نہیں ہونے دیں گے اور دونوں رہنماؤں نے مزید کشیدگی سے بچنے کے لیے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔
امریکا ترکی اور مصر دونوں کا اتحادی ہے اور اس نے اس معاملے میں کوئی واضح موقف اختیار کرنے کے بجائے ملے جلے اشارے دیے ہیں لیکن لیبیا میں روس کی موجودگی پر اسے تشویش بھی لاحق ہے۔ طرابلس پر قبضے کے لیے خلیفہ حفتر کے جنگجوؤں کے ساتھ روسی جنگجوں کو بھی لڑتے دیکھا گیا تھا تاہم ترکی کی حمایت یافتہ حکومتی افواج نے انہیں پسپا کر دیا اور لیبیا میں روسی ملیشیا کی موجودگی پر امریکا کو گہری تشویش ہے۔