لاہور: (ویب ڈیسک) گذشتہ دو ہفتوں سے فلسطین کے مشرقی بیت المقدس میں واقع الشیخ جراح کالونی عالمی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ الشیخ جراح کی وجہ سے فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان آئے روز خونی جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ عرب ممالک کی طرف سے اسرائیلی فوج کی کارروائیوں اور الشیخ جراح میں فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کی شہہ سرخیوں میں چھائے تاریخ الشیخ جراح میں اسرائیلی حکومت نے کئی دہائیوں سے وہاں قائم فلسطینیوں کے درجنوں مکانات مسمار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان مکانات کی ملکیت السفردیم نامی یہودی تنظیم کو منتقل کی جا سکے۔
اس پر فلسطینی شہری گھروں سے نکل آئے اور احتجاج کرنے لگے۔ اسرائیلی پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا۔ الشیخ جراح کے باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی آباؤ اجداد کی زمین اور املاک صہیونیوں کو نہیں دیں گے۔ اس کالونی کے ساتھ ان کی میراث وابستہ ہے اور ان کے باب دادا کئی دہائیوں سے اسی کالونی میں آباد تھے۔
دوسری طرف یہودی آباد کاروں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے الشیخ جراح میں فلسطینیوں سے اراضی اور املاک خرید رکھی ہیں اور یہ املاک ایک یہودی تنظیم کی ملکیت ہیں۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک صدی قبل الشیخ جراح کی املاک اور زمین ایک یہودی تنظیم نے خرید کی تھی۔
الشیخ جراح کا ایشو نیا نہیں بلکہ یہ فلسطینی اور اسرائیلی اصطلاحات میں بھی رچا بسا ہوا ہے۔ سنہ 1948ء کو اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد یہاں سے کئی فلسطینی خاندان بے دخل کر دیئے گئے۔ سنہ 1972ء کو ایک یہودی تنظیم نے دعویٰ کیا کہ اس کے پاس الشیخ جراح کی اراضی کے ملکیتی ثبوت اور دستاویزات ہیں اور ان کی اراضی پر فلسطینیوں نے گھر تعمیر کر رکھے ہیں۔ اشکنازی اور السفاردیم نامی یہودی کمیٹیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس الشیخ جراح کالونی کی زمین اور املاک کے مالکانہ حقوق کی دستاویزات ہیں جو 19 ویں صدی کے آخری دور کی ہیں۔
الشیخ جراح کون تھے؟
الشیخ جراح کالونی مشرقی بیت المقدس کا ایک اہم مقام ہے۔ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو اپنی مجوزہ آزاد وخود مختار ریاست کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جہاں تک الشیخ جراح کی وجہ تسمیہ کی بات ہے تو اس کے بارے میں متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔
الشیخ جراح کون ہیں جن کے نام کے فنگر پرنٹ اس وقت فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان اختلاف کا باعث ہوئے ہیں۔ الشیخ جراح نامی ایک شخص اس کالونی کے قبرستان میں مدفون ہیں مگر اس کے باوجود کالونی کی اراضی کی ملکیت پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ الشیخ جراح کون تھے؟۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کی ایک تحقیقی کاوش سے پتا چلتا ہے کہ الشیخ جراح کالونی یا اس نام سے یہاں پرموجود شخص 16 ویں صدی عیسوی میں یہاں گذرے۔
بیت المقدس کے ایک مؤرخ مجیر الدین الحنبلی نے اپنی کتاب الانس الجلیل فی تاریخ القدس والجلیل میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے القدس کے ایک کونے میں الجراحیہ زاویہ کے نام سے جگہ دیکھی۔ یہ القدس کے شمال میں واقع ہے۔ یہ جگہ حسام الدین الحسین بن شرف الدین عیسیٰ الجراحی سے بھی منسوب بتائی جاتی ہے۔
مجیرالدین کا کہنا ہے کہ الجراحی صلاح الدین ایوبی کے ایک گورنر تھے۔ انہوں نے یہ جگہ وقف کی تھی اور وہ خود 598ھ کو وفات پا گئے تھے۔ وہی یہاں مدفون ہیں۔ ان کے جسد خاکی کے علاوہ کچھ اور قبریں بھی موجود ہیں جن کے بارے میں قیاس کیا جتا ہے کہ وہ جراحی جماعت کے لوگوں کی ہیں۔
الجراح کا نام ایک سیاح الشیخ عبدالغنی النابلسی نے بھی بیان کیا۔ الشیخ نابلسی 1050ھ تا 1143ھ کی درمیانی مدت میں گذرنے والی اہم شخصیت تھے۔ انہوں نے القدس کے سفر سے متعلق الخضرہ الانسیہ فی الرحلہ القدسیہ کےعنوان سے ایک کتاب لکھی۔
النابلسی نے اپنے قارئین کو یہ کہہ کر حیران کیا کہ الجراح کی قبر ایک مزار کی شکل میں بدل گئی تھی اور صاحب مزار الشیخ کہلاتے تھے۔ الحنبلی کے مطابق وہ ایک گورنر تھے۔ نابلسی کا کہنا ہے کہ ہم الشیخ جراح کے مزار پر گئے اور وہاں ہم نے فاتحہ خوانی کی۔ یہ مزار مدرسہ الجراحیہ میں واقع ہے۔ اسی شخصیت کو سلطان صلاح الدین ایوبی کا گورنر قرار دیتے ہیں مگر الشیخ نابلسی نے اپنے سفر نامے میں اس کی وضاحت نہیں کی۔
گورنر سے الشیخ اور طبیب تک
شیخ جراح کی شناخت اور پہچان سے متعلق شبہات مسلسل بڑھتے رہے کہ ان کی حقیقی پہنچان گورنر کی تھی یا وہ الشیخ تھے۔ الحنبلی کی تاریخ میں وہ ایک شہزادہ یا گورنر تھے اس کے بعد وہ ایک بزرگ بن گئے اور ان کے نام سے ایک مزار بھی قائم کیا گیا۔ الشیخ نابلسی کے مطابق وہ ایک طبیب تھے تاہم جراح سے امیر، شیخ اور طبیب تک سفر کے بارے میں کوئی مصدقہ تفصیل نہیں ملتی۔
تاریخی کی کتاب المفصل فی تاریخ القدس میں مؤرخ عارف العارف کے مطابق الشیخ جراح ایک طبیب تھے تاہم وہ اس کی سند بیان نہیں کرسکے۔ انہوں نے یہ تفصیل مدرسہ جراحیہ کے ترجمہ کے سیاق سے حاصل کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جراح سلطان صلاح الدین ایوبی کے طبیب خاص تھے۔
تاریخ کی بڑی کتب خاموش
الشیخ جراح ایک گم نام شخص تھے جن کا تاریخ کی بڑی کتابوں میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ بعض تاریخی مصادر سے پتا چلتا ہے کہ حسام الدین کے نام سے مشہور ہونے والے لوگوں میں صلاح الدین ایوبی کے گورنر حسام الدین ابو الھیجا تھے اور وہ السمین کے لقب سے مشہور ہوئے۔ وہ صلاح الدین ایوبی کے ایک بڑے کرد عسکری کمانڈر تھے۔
حسام کے نام سے شہرت پانے والی ایک دوسری شخصیت حسام الدین بن لاجین تھے جو صلاح الدین ایوبی کے خالہ زاد تھے۔ انہوں نے 587ھ میں وفات پائی۔ جہاں تک الجراحیہ قلعہ کا تعلق ہے تو وہ عراق کی موصل گورنری کا حصہ ہے۔
تاریخی کتب میں جراح کے نام سے شہرت پانے والی شخصیت کی وفات کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ کم سے کم بڑی تاریخی کتب اس نام سے ہی خالی ہیں۔ ابن اثیر کی تاریخ کامل کے مطابق 598ھ میں خلفیہ عباسی کی ایک لونڈی نے وفات پائی مگر اس سال صلاح الدین ایوبی کے کسی گورنر کی وفات کا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔
ابن کثیر کی البدایہ والنھایہ میں میں بھی 598ھ میں کسی نامور شخصیت کی وفات کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ اس سال بادشاہ بنی ایوب کی وفات کا حوالہ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ خلیفہ عباسی کی ایک لونڈی جس کی وفات کا تذکرہ ابن اثیر نے بھی کیا ہے۔ ابن عماد الحنبلی کی شذرات الذھب فی اخبار من الذھب اور اور الذھبی کی سیراعلام النبلا میں بھی 598ھ کی وفات میں کوئی حوالہ نہیں ملتا۔