انقرہ: (ویب ڈیسک) ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ جس طرح طالبان نے امریکا سے بات چیت کی تھی ویسے ہی طالبان کو ان مذاکرات پر ترکی سے بھی آرام سے بات چیت کرنی چاہیے۔ اگر کچھ شرائط مان لی جائیں تو ترکی کابل ائیر پورٹ کا کام سنبھالنے پر غور کر سکتا ہے۔
امریکی انخلا کے بعد ائیر پورٹ سکیورٹی کے بارے میں امریکا اور ترکی کے درمیان بات چیت جاری ہے۔ انقرہ نیٹو کے زیر قیادت ریزولوٹ سپورٹ مشن کے ایک حصے کے طور پر 6 سالوں سے کابل ائیر پورٹ پر فوجی اور لاجسٹک آپریشن چلا رہا ہے۔
ترکی نے امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد کابل ائیر پورٹ کی سیکورٹی کی ذمہ داری لینے کی پیشکش کی تھی جس کے بعد سے امریکی اور ترک حکومت ا س حوالے سے رابطے میں ہے۔
افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بارے میں افغان افواج اور طالبان کے مابین شدید لڑائی جاری ہے۔ امریکی صدر جوزف بائیڈن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوجی مشن 31 اگست کو اختتام پذیر ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی، ترکی نے پاکستان سے مدد مانگ لی
غیر ملکی میڈیا کے مطابق شمالی قبرص میں عید کی نماز کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ ترکی افغانستان میں ایک بڑے ہوائی اڈے پر کام کرنے پر غور کر رہا ہے اور ترکی طالبان کے ساتھ افغان امن عمل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے تیار ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس طرح طالبان نے امریکا سے بات چیت کی تھی ویسے ہی طالبان کو ان مذاکرات پر ترکی سے بھی آرام سے بات چیت کرنی چاہیے۔
دوحہ میں ہونے والے افغان امن مذاکرات کا ذکر کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ ترکی مذاکراتی عمل کا اچھا استعمال کرے گا اس کے علاوہ اور بہت سے طریقے ہیں اور ہم ان طریقوں پر کام کر رہے ہیں۔ اگر کچھ شرائط ہماری مان لی جائیں تو ترکی کابل ائیر پورٹ کا کام سنبھالے پر غور کر سکتا ہے۔
رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ اب ایک نیا دور ہے اور یہاں تین اہم بڑی قوتیں نظر آ رہی ہیں، نیٹو، امریکا اور ترکی۔ امریکا نے خطے سے دستبرداری کے فیصلے کا اعلان کیا ہے اور واشنگٹن چاہتا ہے کہ کابل ائیر پورٹ ترکی چلائے جیسا کہ وہ کئی سالوں سے چلاتا آ رہا ہے۔ ہم فی الحال اسکو مثبت انداز سے دیکھ رہیں مگر ترکی کی کچھ شرائط ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کا کابل ایئرپورٹ کی سکیورٹی ترکی کے حوالے کرنے کا فیصلہ
انہوں نے شرائط کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو امریکا سفارتی تعلقات میں سفارتکاری کے نقطہ پر ہمارے ساتھ ہوگا۔ دوسرا یہ کہ امریکا لاجسٹک پوائنٹس پر ہمارے لیے ذرائع اکھٹا کرے گا اور لاجسٹک سے متعلق جو بھی طاقت ہے وہ ترکی کو منتقل کرے گا۔ اور آخر میں ترکی کو اس عمل کے دوران مالی اور انتظامی مدد کی ضرورت ہوگی۔
گزشتہ ہفتے طالبان نے ترکی کو انتباہ کیا تھا کہ افغان ایئر پورٹ پر ترک فوج کی موجودگی سے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس پر صدر اردوان سے جب طالبان کے بیان کے متعلق پوچھا گیا تو صدر کا کہنا تھا کہ اس بیان میں ہمیں ترکی کی ضرورت نہیں ہے ایسا کوئی جملہ نہیں ہے ۔