دبئی: (ویب ڈیسک) افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کی متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔ دوسری طرف اشرف غنی کا کہنا ہے کہ طالبان ہر کمرے میں ڈھونڈ رہے تھے، کابل میں رہتا تو خونریزی کا خدشہ تھا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق افغان طالبان نے چند روز قبل کابل میں داخل ہو کر افغانستان میں فتح حاصل کر لی تھی جس کے بعد افغانستان کے صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہو گئے جن کے بارے میں بتایا جا رہا تھا کہ وہ تاجکستان چلے گئے تاہم تاجک حکام کی طرف سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ افغان صدر ہمارے ملک میں موجود نہیں جس کے بعد چہ میگوئیاں شروع ہو گئی تھیں کہ آخر اشرف غنی کہاں گئے ہیں۔
#الإمارات تستقبل #أشرف_غني وأسرته في البلاد لاعتبارات إنسانية.#وام https://t.co/FzCGF5Px15 pic.twitter.com/fQUTQXiZDu
— وكالة أنباء الإمارات (@wamnews) August 18, 2021
اس حوالے سے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی وزارت خارجہ نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اشرف غنی یو اے ای میں موجود ہیں، وہ اور ان کا خاندان یو اے ای میں موجود ہے۔ انہیں اوراہلخانہ کو انسانی بنیادوں پرخوش آمدیدکہا۔
اس سے قبل اشرف غنی کے بھائی حشمت غنی احمد زئی کا کہنا ہے کہ میری معلومات کے مطابق اشرف غنی مشرقِ وسطیٰ میں ہیں۔ امید ہے کہ طالبان افغان عوام کو امن دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کے آنے سے اب تک کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا، اشرف غنی اور حامد کرزئی کے دورِ اقتدار میں کرپشن عام تھی۔ امید ہے کہ آنےوالی حکومت میں اہل لوگ شامل ہوں گے۔ امر اللّٰہ صالح سیاسی بندے نہیں، ان کے پاس 2 لوگ نہیں، وہ سوشل میڈیا پر سیاست کر رہے ہیں۔
سابق افغان صدر اشرف غنی کے بھائی کا مزید کہنا ہے کہ پنج شیر کے عمائدین بھی لڑنے کو ترجیح نہیں دیتے۔ طالبان لمحہ بہ لمحہ میری خیریت معلوم کرنے کے لیے کال کر رہے ہیں۔
ایران اور چین کا افغانستان میں ’مشترکہ مفادات‘ کے لیے مل کر کام کرنے کا عزم
بی بی سی کے مطابق چین کے صدر شی جن پنگ اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے درمیان ٹیلیفون پر رابطہ ہوا ہے جس میں دونوں ممالک نے افغانستان میں مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
ابراہیم رئیسی نے کہا کہ تہران افغانستان میں ’سیکیورٹی، استحکام اور امن کے لیے‘ بیجنگ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔ ملک سے غیر ملکیوں کے انخلا اور ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ تمام افغان شہری افغانستان کی ترقی اور سلامتی کے لیے تعاون کریں۔
شی جن پنگ نے بھی افغانستان میں چین اور ایران کے مشترکہ مفادات پر زور دیا اور کہا کہ وہ نئی صورتحال میں تعاون اور رابطہ کاری مضبوط کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
اشرف غنی اپنے ساتھ 16 کروڑ 90 لاکھ ڈالر لے گئے: افغان سفیر کا الزام
افغانستان کے صدر اشرف غنی ملک میں طالبان کے قبضے کے فوری بعد صدارتی محل چھوڑ کر کابل سے چلے گئے تھے تاہم اب انکشاف کیا گیا ہے وہ اپنے ساتھ ملکی خزانے سے 16 کروڑ 90 لاکھ ڈالر بھی لے گئے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق تاجکستان میں افغانستان کے سفیر نے الزام عائد کیا ہے کہ اشرف غنی جب اتوار کو ملک سے جارہے تھے تو تقریباً 16 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی رقم ساتھ لے گئے۔
مجبوری میں افغانستان گیا ہوں، واپس آؤںگا: اشرف غنی
امارات پہنچنے کے بعد فیس بک پر جاری پیغام میں اشرف غنی کا کہنا تھا کہ اگر میں رہ جاتا تو افغانستان کے جمہوری صدر کو پھانسی پر ایک دفعہ پھر چڑھایا جاتا۔ مجھے مجبوری کے تحت افغانستان سے نکالا گیا تاکہ خونریزی اور کابل تباہی سے بچ جائے۔ گزشتہ دنوں میں میرے خلاف بہت سے الزامات لگے کہ میں اپنے ساتھ رقم لے گیا ہوں، یہ الزامات مکمل طور پر جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس قسم کے الزامات کو سختی سے رد کرتا ہوں۔ مجھے اپنی فوج پر فخر ہے۔ ہماری فوج نے شکست نہیں کھائی بلکہ اصل میں ہمیں شکست سیاست میں ہوئی۔ یہ ناکامی طالبان، ہماری حکومت اور بین الاقوامی شراکت داروں کی ناکامی تھی۔ گذشتہ دنوں کے واقعات نے بتا دیا ہے کہ افغان امن چاہتے ہیں اور کابل ایک بہت بڑی افراتفری سے بچ گیا ہے۔ یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے مذاکرات کی حمایت کرتا ہوں جو چیئرمین عبداللہ عبداللہ اور سابق صدر حامد کرزئی کی سربراہی میں ہو رہے ہیں۔ چاہتا ہوں کہ مذاکرات کا یہ سلسلہ کامیاب ہو۔ میں اپنے ملک واپس جاؤں گا، ماضی میں بہت سے حکمران بوقت ضرورت ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل ملک چھوڑنے کے بعد سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں اشرف غنی نے کہا تھا کہ انہوں نے ملک میں خون ریزی روکنے کے لیے افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
اشرف غنی کا اپنے فیس بک پیج پر جاری پیغام میں کہنا تھا کہ آج مجھے مسلح طالبان کے سامنے کھڑے ہونے جو صدارتی محل میں داخل ہونا چاہتے تھے یا اپنے پیارے ملک کو چھوڑ جانے میں سے ایک مشکل انتخاب کا سامنا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر میں رہتا تو بے شمار ہم وطن شہید ہوتے اور کابل شہر کو تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑتا اور نتیجہ 60 لاکھ کے شہر میں ایک بڑے انسانی المیے کی صورت میں رونما ہوتا۔ طالبان نے دھمکی دی تھی کہ وہ مجھے ہٹانے کے لیے کابل اور کابل کے لوگوں پر حملے کرنے کے لیے تیار ہیں۔
سابق افغان صدر کا کہنا تھا کہ خونریزی کے سیلاب سے بچنے کے لیے میں نے بہتر سمجھا کہ باہر چلا جاؤں۔ طالبان نے تلوار اور بندوق کی جنگ جیت لی ہے اور اب وہ اہل وطن کی جان و مال اوعزت کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن انہوں نے لوگوان کے دل نہیں جیتے۔ صرف طاقت نے تاریخ میں کبھی کسی کو جواز حکمرانی اور قانونی حیثیت نہیں دی اور نہ دے گی۔
انٹرپول سے اشرف غنی کی گرفتاری کا مطالبہ
تاجکستان میں تعینات افغان سفیر نے انٹرپول سے سابق صدر اور ان کے ساتھیوں کی گرفتار کا مطالبہ کردیا۔
افغان سفیر نے اشرف غنی، حمد اللہ محب اور فضل محمود فضلی پر غبن کے الزامات عائد کرتے ہوئے انٹرپول سے تینوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے ۔
کابل میں روسی سفیر نے الزام لگایا تھا کہ اشرف غنی جاتے ہوئے چار گاڑیوں میں بھرے ڈالرز اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
افغان طالبان کے وفد کی سیاسی قیادت سے پہلی باقاعدہ ملاقات
افغان طالبان کے وفد نے کابل میں سابق صدر حامد کرزئی اور سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی ہے۔
افغان میڈیا کے مطابق طالبان وفد کی قیادت قطر میں سیاسی دفتر کے رکن انس حقانی نے کی۔ افغان سینیٹ کے سابق چیئرمین فضل ہادی سمیت دیگر حکام بھی ملاقات میں موجود تھے۔
ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی طالبان قائدین کی افغان سیاسی رہنماؤں سےکابل میں پہلی باقاعدہ ملاقات کی تصدیق کر دی ہے۔ طالبان وفد نے سیاسی قائدین کے سکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا، افغان سیاسی قیادت کو فول پروف سکیورٹی فراہم کر دی ہے۔
شہری ہتھیار اور گولہ بارود ہمارے حوالے کر دیں: افغان طالبان
افغان طالبان نے مزید کہا ہے افغان شہریوں کو ہتھیار اور گولہ بارود ان کے حوالے کرنے ہوں گے۔طالبان رہنما عامر خان متقی کے مطابق افغانستان میں جامع حکومت قائم کی جائے۔
افغانستان میں طالبان کے نظم و نسق کے لیے اقدامات جاری ہیں، طالبان نے کہا ہے افغان شہریوں کو ہتھیار، گولہ بارود ان کے حوالے کرنا ہوں گے، افغان طالبان کے مزید رہنما منظر عام پر آئیں گے۔ دنیا ان کے رہنماؤں کو بتدریج دیکھے گی، کوئی راز داری نہیں رہے گی۔
طالبان رہنما عامر خان متقی نے کہا ہے کہ افغانستان میں جامع حکومت قائم کی جائے۔
خبر ایجنسی کے مطابق کابل میں معمول کی زندگی شروع ہو چکی ہے، سڑکوں پر چہل پہل نظر آنے لگی ہے، دکانیں اور ریستوران کھل گئے ہیں۔
کابل کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کے کوئی مسائل نہیں ہیں، کابل کے رہائشیوں نے امید ظاہر کی ہے طالبان لوگوں کی مدد کریں گے، لوگوں نے قیمتوں میں اضافے کی شکایت بھی کی۔
بڑی تعداد تاحال کابل ایئر پورٹ پر موجود
افغان میڈیا کے مطابق غیر ملکیوں اور افغان باشندوں کی افغانستان سے نکلنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد کابل ائیرپورٹ پر موجود ہے، کچھ افراد کے پاس پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات بھی نہیں ہیں ۔
خبرایجنسی کے مطابق بھارتی سفارتی عملہ طالبان کےحصارمیں کابل ایئرپورٹ پہنچا،حفاظت کیلئےبھارتی سفارتخانے کے باہرمشین گنوں، گرینیڈ لانچر سے لیس طالبان کا گروہ موجود تھا، بھارتی سفارتخانےسے 2درجن گاڑیاں باہرنکلیں۔
افغان طالبان کی مظاہرین پر فائرنگ، 3 افراد ہلاک
افغانستان کے متعدد شہروں میں طالبان مخالف مظاہرے ہوئے، صوبہ کنڑ کے شہر اسد آباد میں مرکزی چوراہے پر افغان پرچم لہرایا گیا، ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد میں مظاہرین نے افغان پرچم اٹھا کر مظاہرہ کیا، مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طالبان نے فائرنگ کی جس سے 3 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ بارہ زخمی ہوگئے۔
کابل ائیرپورٹ کے باہر کی سیکیورٹی طالبان نے سنبھال لی ہے۔ سینکڑوں لوگوں نے ائیرپورٹ میں گھسنے کی کوشش کی تو طالبان نے لاٹھی چارج کیا۔ جس سے بھگدڑ مچ گئی اور درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔
اشارے مل رہے ہیں موجودہ طالبان 90 کی دہائی والے نہیں: برطانوی چیف آف ڈیفنس سٹاف
برطانیہ کے چیف آف ڈیفینس سٹاف جنرل سر نک کارٹر نے کہا ہے کہ دنیا کو صبر کے ساتھ یہ دیکھنا ہوگا کہ طالبان کی حکومت میں افغانستان کا مستقبل کیسا ہوگا۔
بی بی سی کے مطابق اُنھوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں صابر رہنا پڑے گا۔ ہم نے طالبان سے گذشتہ 24 گھنٹوں میں بہت کچھ سنا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موجودہ طالبان اُن طالبان سے مختلف ہوں جنھیں ہم 1990 کی دہائی سے جانتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ طالبان زیادہ معقول اور کم رجعت پسند ہوں۔ اور اگر آپ دیکھیں کہ وہ فی الوقت کابل کو کیسے چلا رہے ہیں، تو کچھ اشارے موجود ہیں کہ یہ زیادہ معقول ہیں۔
سر نک کارٹر نے کہا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے گزشتہ 20 سالوں میں ویسے ہی سیکھا ہو جیسے کہ ہم نے گزشتہ 20 سالوں میں سیکھا ہے۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم بورس جانسن کے دفتر نے کہا ہے کہ طالبان کو اُن کے الفاظ سے نہیں بلکہ اقدامات سے پرکھا جائے گا۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آگے کیا ہوتا ہے۔
بامیان میں ہزارہ رہنما کا مجسمہ مسمار
افغانستان کے شہر بامیان میں ایک نامور طالبان مخالف جنگجو کا مجسمہ توڑ دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شہریوں کا کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں کہ ہزارہ رہنما عبدالعلی مزاری کا مجسمہ کس نے تباہ کیا ہے۔
These pictures were sent to me- the Taliban reportedly blew up slain #Hazara leader Abdul Ali Mazari’s statue in Bamiyan. In the 90s they executed him. Given Bamyan Buddhas were blown up & archaeological sites destroyed, is anything being done to protect artefacts? @DalrympleWill pic.twitter.com/TszJUpNuqY
— Yalda Hakim (@BBCYaldaHakim) August 18, 2021
ایک شہری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ علاقے میں طالبان کے کئی گروہ موجود ہیں۔
امریکی جہاز کے پہیوں میں پھنسے انسانی باقیات کی تحقیقات شروع
امریکی حکام نے کہا ہے کہ وہ ان انسانی باقیات سے متعلق تحقیقات کر رہے ہیں جو اس کے فوجی طیارے کے پہیوں میں پھنسے ہوئے تھے۔
دو روز قبل طالبان کی کابل آمد پر شہر کے ایئر پورٹ پر افراتفری کے ایسے مناظر دیکھنے میں آئے جن میں ملک چھوڑنے کے خواہشمند افراد امریکی طیارے سی 17 کے ساتھ بھاگ رہے تھے اور بعض نے تو اس کے ساتھ لٹکنے کی بھی کوشش کی۔ کابل ایئر پورٹ پر اس حادثے میں 3 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
امریکی فضائیہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کا یہ طیارہ کابل ایئر پورٹ پر پیر کو اُترا اور اس کے گرد سینکڑوں افغان شہری جمع ہوگئے تھے۔ سکیورٹی صورتحال میں خرابی کے باعث، سی 17 کے عملے نے جلد از جلد ایئر پورٹ سے اڑان بھرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ جہاز قطر کے ایک ہوائی اڈے پر اترا تھا۔
امریکی فضائیہ کا کہنا ہے کہ اس طیارے کو گراؤنڈ کر دیا گیا ہے تاکہ انسانی باقیات کو جمع کیا جاسکے اور اس پرواز کی بحالی کے لیے جہاز کا جائزہ لیا جائے گا۔