کابل: (ویب ڈیسک) افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ افغان طالبان نے ملک پر قبضہ نہیں کیا بلکہ انہیں اشرف غنی کے فرار ہونے کے بعد خود کابل آنے کی دعوت دی تھی۔
اس بات کا انکشاف سابق افغان صدر حامد کرزئی نے امریکی خبر رساں ادارے اے پی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔
انٹرویو کے دوران کرزئی نے بتایا کہ عبد اللہ عبد اللہ اور دوحہ میں موجود طالبان قیادت اس حوالے سے ہونے والے معاہدے کا حصہ تھی۔ اشرف غنی کے جاتے ہی دیگر حکام بھی ملک چھوڑ گئے تھے۔ جب میں نے جنرل بسم اللہ خان کو فون کیا تو بتایا گیا اعلیٰ حکام میں سے شہر میں کوئی بھی موجود نہیں ہے۔
15 اگست کی صبح افواہیں پھیلی ہوئی تھیں کہ طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا ہے جس پر انہوں نے دوحہ فون کیا جہاں سے انہیں بتایا گیا کہ طالبان شہر کے اندر داخل نہیں ہوں گے۔ دوپہر کے وقت طالبان نے حکومت سے کسی قسم کی کارروائی نہ کرنے کا کہا کیونکہ ان کا شہر میں داخل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اگر اشرف غنی کابل میں موجود رہتے تو اقتدار کی پرامن منتقلی ہو سکتی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ مستقبل کے افغانستان کے لیے ضروری ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو یکساں تعلیم کے مواقع ملیں، ان کو سیاست میں جگہ بنانا ہو گی، معاشی میدان، انتظامی امور اور سماجی طور پر بھی، یہ ایسی چیزیں ہیں جن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ جب تک ایسا نہیں ہو جاتا دنیا کو طالبان کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہیے۔ افغانستان کو اچھے انتظامات کی ضرورت ہے۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینی ہیں جبکہ صحت کی سہولتوں کو بھی بہتر بنانا ہے۔ لڑکیوں اور خواتین کا مرد کے بغیر باہر گھر سے باہر نہ نکل سکنے کی بات درست نہیں، گلیوں میں لڑکیاں اور خواتین دیکھی جا سکتی ہیں۔