ٹوکیو: (ویب ڈیسک) امریکا کے بعد جاپان کی افواج میں بھی خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہونے لگا جس کے باعث جاپانی خواتین فوج کی ملازمت سے گھبرانے لگی ہیں۔
غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق جاپان ایک بڑی فوج کی تیاری کر رہا ہے اور اس میں خواتین کے عہدوں پر تعیناتیوں کا بھی خواہشمند ہے تاہم خواتین پر جنسی حملوں میں اضافے کے بعد 2023ء کے دوران خواتین کی فوج میں بھرتی کیلئے درخواستوں میں 12 فیصد تک کمی آئی ہے۔
وزارت دفاع کی جانب سے سخت اقدامات اٹھانے کے وعدے کے بعد بھی کوئی خاص اقدامات دکھائی نہیں دیتے، حکام کا کہنا ہے آزاد ماہرین کی جانب سے انسداد ہراسیت نظام کی تشکیل کیلئے کچھ تجاویز دی گئی تھیں تاہم وزارت اس حوالے سے کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں رکھتی۔
حکومت کی جانب سے مقرر کردہ پینل نے اگست میں رپورٹ شائع کی جس میں نشاندہی کی تھی کہ فوجی تربیت میں جنسی ہراسیت کا سطحی سا ذکر ہے، صرف چند پہلوؤں تک محدود رہتے ہوئے معاملے کا مکمل احاطہ نہیں کیا جاتا جبکہ نگرانی کے فقدان کے باعث مسائل بڑھ رہے ہیں۔
یاد رہے ہراسانی کے واقعات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد میں اضافے کیلئے اقدامات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب جاپان کو چین، شمالی کوریا اور روس کی جانب سے خطرات کا سامنا ہے اور وہ اپنے جنگ زدہ ماضی کیساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جاپان کی فوج میں خواتین کی تعداد صرف 9 فیصد ہے جبکہ اس کے اہم سکیورٹی اتحادی امریکا میں یہ تعداد 17 فیصد تک ہے، ایک خاتون سابق فوجی اہلکار رینا گونوئی نے 2022 میں دوران ملازمت ہراساں کیے جانے کے الزامات لگائے۔
الزامات کے بعد وزارت دفاع نے اسی سال کے اعدادوشمار پر کام کیا تو ایس ڈی ایف میں 170 سے زائد واقعات سامنے آئے تھے، اسی طرح فوج سے تعلق رکھنے والی دیگر خواتین نے بھی ہراساں کیے جانے کے الزامات لگائے تھے۔