ٹائر مینوفیکچرر کی ایف بی آر سے اسمگلنگ کیخلاف اقدامات کی درخواست

Last Updated On 13 November,2018 08:48 pm

لاہور: (دنیا نیوز) ایف بی آر سے مقامی ٹائر انڈسٹری نے درخواست کی ہے کہ اسمگلنگ کے خلاف اقدامات کئے جائیں، اس حوالے سے جنرل ٹائر اینڈ ربڑ کمپنی کے سی ای او حسین قلی خان نے چیئرمین ایف بی آر کو خط بھی تحریر کیا ہے جس میں تفصیلات فراہم کی گئی ہیں جن سے مقامی انڈسٹری اور حکومت کو نقصان ہو رہا ہے۔

جنرل ٹائر اینڈ ربڑ کمپنی کے سی ای او حسین قلی خان نے یہ بھی کہا کہ کچھ حلقوں کی جانب سے ریگولیٹری ڈیوٹی کو ختم کرنے کی بات کی گئی ہے، یہ حکمت عملی بالکل بھی قابل عمل نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے خط میں پرال اور کیئر کا ڈیٹا جولائی 2017 تا جون 2018 کا بھی حوالہ دیا ہے جس سے ثابت کیا گیا ہے کہ موجودہ آر ڈی سے درآمدی ٹائروں میں صرف 11 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

ٹائر انڈسٹری 52 فیصد ٹائر ڈیمانڈ کو پورا کرتی ہے اور اگر اس میں سے 11 فیصد کو ختم کردیا جائے تو اسمگلنگ 41 فیصد ہو گی جو اتنی زیادہ ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے اپنے خط میں مزید کہا کہ ٹرک بس ریڈائل ٹائر 80 فیصد چین سے درآمد کئے جاتے ہیں جس کی درآمد پر زیرو فیصد ڈیوٹی عائد ہے لیکن اس کے باوجود ان ٹائروں کی اسمگلنگ نہیں رکی ہے۔ اس لیے ڈیوٹی کو ختم کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔

خط میں کہا گیا کہ آر ڈی کا نفاذ ایک موثر طریقہ ہے جو 5 سال سے 10 سال کے لیے نافذ کی جائے اور پالیسیوں پر سختی سے عمل کیا جائے تاکہ سرمایہ کار اپنے نئے منصوبوں کو تشکیل دے سکیں اور ملک میں نئی سرمایہ کاری ہوسکے۔ خط میں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ ملک میں فروخت کئے جانے والے کابلی ٹائر کو انسانی زندگیوں کے لیے باعث خطرہ ہیں۔

کابلی ٹائروں کی اسمگلنگ کے حوالے سے میڈیا کی بعض رپورٹس پر انہوں نے کہا کہ یہ پرانے ٹائر مارکیٹ میں بڑی تعداد میں فروخت کئے جارہے ہیں اور اس کا ایک بڑا ذریعہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان کی روک تھام کے لیے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے امپورٹ ڈیٹا کی جانچ پڑتال کو سخت بنائے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ افغان امپورٹ کئے جانے والے ٹائر وہاں کی آبادی اور مارکیٹ کی درست ترجمانی کرتے ہیں یا نہیں۔ افغان ٹرانزٹ کے ذریعے ٹائر اسمگل کرکے کراچی اور دیگر ملک کے حصوں میں منتقل کردیئے جاتے ہیں۔

انڈسٹری نے ایک تجویز اور بھی دی ہے کہ جب تک مارکیٹ میں فروخت کئے جانے والے ان ٹائروں کی دکانوں کو بند نہیں کیا جاتا اور مالکان کو جیلوں میں بند نہیں کیا جاتا یہ عمل جاری رہے گا اور حکومت کی آمدنی میں نقصان ہوتا رہے گا۔دوسری طرف عوام بھی خطرات سے بے خبر ان ٹائروں کو اسی طرح خریدتی رہے گی۔ حکام کو یقینی بنانا چاہیے کہ ملک میں کوئی ٹائر بغیر متعلقہ دستاویزات کے فروخت نہ ہو۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسی مارکیٹوں پر چھاپے ماریں جہاں غیرقانونی اسمگل شدہ ٹائر فروخت کئے جارہے ہیں۔ اسمگل شدہ ٹائر ملک بھر میں کھلے عام تجارتی مراکز میں فروخت کئے جاتے ہیں۔