اسلام آباد: (دنیا نیوز) آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر پر معیشت کو بھاری نقصان ہوا، ڈالر کی قدر بڑھنے سے مہنگائی کا طوفان آگیا جبکہ سٹاک مارکیٹ میں 57 سو پوائنٹس کی کمی ہوئی۔ صنعتی شعبے میں ترقی کی شرح منفی ایک اعشاریہ پانچ فیصد پر آگئی۔
حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جاتے جاتے پورے 10 ماہ لگا دیئے اور نتیجا یہ نکلا کہ سٹاک مارکیٹ سے سرمایہ نکالے جانے کے باعث انڈیکس 5700 پوائنٹس تک گرگیا۔
صنعتی ترقی منفی زون میں چلی گئی جس کے باعث بے روزگاری کا سیلاب امڈ آیا، روپیہ اپنی قدر کھوتے کھوتے 143 تک پہنچ گیا، پیٹرول 100 روپے سے تجاوز کرگیا، شرح سود 11 فیصد کے قریب پہنچ گیا اور ان سب عوامل نے مل کر مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا۔
لیکن قصہ ابھی ختم نہیں ہوتا، آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کے بعد معاشی اصلاحات کے لیے عوام کو مزید سخت وقت دیکھنا ہوگا، یکم جولائی سے بجلی مہنگی ہوگی، قیمتوں میں اضافہ دو مراحل میں ہوگا، بجلی صارفین سے 3 سال کے اندر 202 ارب روپے اضافی وصول کیے جائیں گے۔
گیس کی قیمتیں دوسرے مرحلے میں بڑھائی جائیں گی اور صارفین سے 3 سال میں 140 ارب روپے اضافی وصول کیے جائیں گے۔ 25 فیصد گیس اور 30 فیصد بجلی کے صارفین پر قیمتوں میں اضافے کا اثر پڑیگا۔ یکم جولائی سے ٹیکس آمدن میں 700 ارب روپے کا اضافہ کیا جائے گا، انکم ٹیکس کی چھوٹ ختم اور سالانہ 4 لاکھ سے زائد آمدن پر انکم ٹیکس لاگو ہوگا۔
ترقیاتی بجٹ گزشتہ سال کی سطح پر منجمد کیا جائے گا، خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کی جائے گی، ایکسچینج ریٹ طے کرنے میں اسٹیٹ بینک خودمختار ہوگا، بجٹ خسارہ کم کر کے 3 سال میں 6.8 فیصد سے 4 فی صد تک لایا جائے گا، مالی نظم و ضبط پر عمل اور غیر ترقیاتی اخراجات محدود رکھے جائیں گے۔
اگر اصلاحاتی پروگرام پر من و عن عمل ہوتا ہے تو 2، 3 سال بعد توقع کی جاسکتی ہے کہ عوام پر سے سخت وقت ختم ہوگا اور ملکی معیشت ڈگر پر نکل پڑے گی۔