اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی ٹیکس محتسب (ایف ٹی او) نے ایف بی آر کو 12 ہزار متاثرہ افراد،جنہوں نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے تحت آخری تاریخ سے پہلے 2.6 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرایا لیکن ایف بی آر کے آن لائن سسٹم میں فالٹ کی وجہ سے بروقت آثاثے ظاہر نہیں کر سکے ،کو دوبارہ ٹیکس ایمنیسٹی سکیم کی سہولت دینے کی سفارش کی ہے۔
ایف ٹی او رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کے باوجود کہ ایف بی آر اپنے سسٹم کی خرابی سے آگاہ تھا لیکن تقریبا ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ایف بی آر نے متاثرہ افرادکی شکایات کا ازالہ کرنے کے لئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا ہے۔
ایف بی آر کی آن لائن سسٹم پر متوقع بوجھ برداشت کرنے کیلئے ناکافی انتظامات کی وجہ سے 12 ہزار افراد اثاثے ظاہر کرنے میں ناکام رہے ۔ کیس کی سنوائی کے دوران ایف بی آر نے ایف ٹی او کو اپنے کمنٹس میں موقف اختیار کیا تھا کہ ٹیکس کی ادائیگی نہیں بلکہ اثاثہ جات کی ڈیکلیریشن جمع کرنا ایمنیسٹی سکیم کی شرط تھی جبکہ ایف بی آر کا آن لائن سسٹم بھی مکمل طور پر فعال تھا، تاہم سسٹم پر بوجھ زیادہ تھا۔
دوسری طرف پاکستان ٹیکس بار ایسوسیشن کے صدر کا موقف تھا کہ ایف بی آر کا سسٹم غیر فعال تھا جسکی تصدیق ایف بی آر کے سابقہ چئیرمین شبر زیدی نے بھی الیکٹرانک پرکی تھی جبکہ ایف بی آر کا سسٹم میں فالٹ نہ ہونے کا مؤقف قابل اعتماد نہیں کیونکہ ڈیکلیئر یشن پورٹل تک لوڈ کی وجہ سے رسائی ممکن ہی نہیں تھی۔
پاکستان ٹیکس بار ایسوسیشن کے صدر نے آن لائن سسٹم تک رسائی کی عدم دستیابی کی سکرین شاٹس بھی وفاقی ٹیکس محتسب کو فراہم کیں جوکہ وہ پہلے ہی ایف بی آر کو ٹیکس ایمنیسٹی سکیم کی آخری تاریخ کے اگلے دن فراہم کر چکے تھے۔
وفاقی ٹیکس محتسب مشتا ق احمد سکھیرا نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایف بی آر آن لائن سسٹم کو مربوط طریقے سے چلانے میں ناکام رہا جوکہ نااہلی کے مترادف ہے۔ 12 ہزار افراد کی طرف سے 2.6 ارب روپے کا جمع شدہ ٹیکس، ٹیکس دہندگان کی سکیم سے فائدہ اٹھانے کی دلیل ہے۔ ٹیکس ایمنیسٹی سکیم کا مقصد دستاویزی معیشت کو فروغ دینا ، معیشت کی بحالی اور ٹیکس کی بروقت اور درست ادائیگی تھا لیکن 12 ہزار متاثرہ افراد ایف بی آر افسران کی نااہلی کی وجہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ نہ اُٹھا سکے۔
ایف ٹی او رپورٹ کے مطابق ایف بی آر کو ان لائن سسٹم کی خرابی دور کرنے میں ناکامی کا احساس ہو چکا تھا اس لیے خفیہ طور پر اثاثے جمع کرنے کی مدت میں آرڈیننس کی دفعات کے برخلاف توسیع کی گئی ۔ جبکہ ایف بی آر کا یہ موقف کہ کہ ٹیکس کی ادائیگی نہیں بلکہ اثاثہ جات کی ڈیکلیریشن جمع کرنا ایمنیسٹی سکیم کی شرط تھی، درست نہیں کیونکہ آرڈیننس کی شق نمبر دس کے مطابق جمع شدہ ٹیکس ناقابل واپسی ہے اور نہ ہی ایڈجسٹ کیا جائے گا۔
کیس سنوائی کے دوران ایف بی آر کے اہلکار آرڈیننس کی دفعات کی تشریح کرنے میں ناکام رہے۔وفاقی ٹیکس محتسب نے ایف بی آر کو سفارش کی ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق نمبر 17 کے تحت متاثرہ افراد کو اثاثے ظاہر کرنے کی سہولت کا انتظام کیا جائے۔ آن لائن سسٹم کا مکمل جائزہ لیکر موثر طور پر اپ ڈیٹ کیا جائے اور 45 دنوں کے اندر تعمیل کی اطلاع ایف ٹی او کو دی جائے۔
ایف ٹی او رپورٹ کے مطابق ٹیکس ایمنیسٹی سکیم کو قابل عمل بنانے کیلئے ایف بی آر افسران کی ان لائن سسٹم کو ڈیزائن کرنے میں نااہلی، غفلت اورنا مناسب انتظامات بدانتظامی کے مترادف ہیں۔
وفاقی ٹیکس محتسب نے پاکستان ٹیکس بار ایسوسیشن اور متاثرہ افراد کی شکایات پر از خود نوٹس لیا تھا۔ درخواست کے مطابق ایف بی آر کے آن لائن سسٹم میں فالٹ کی وجہ سے 12 ہزار افراد 2.6 ارب روپے کا ٹیکس آخری تاریخ سے پہلے جمع کرنے کے باوجود اثاثے ظاہر کرنے میں ناکام رہے اور ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ نہ اُٹھا سکے تھے۔