لاہور: (ویب ڈیسک) روپے کے مقابلے میں گزشتہ چند روز کے دوران امریکی ڈالر مسلسل سستا ہو رہا ہے۔ فروری سے لیکر اب تک ڈالر ساڑھے 5 روپے سستا ہو چکا ہے۔ امکان ہے کہ روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت 150 روپے تک جا سکتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ڈالر کی موجودہ قیمت کا جائزہ لیا جائے تو یہ اکتوبر 2019 تک کی سطح تک گر چکی ہے جبکہ اکتوبر 2020ء میں اس کی قیمت 168 روپے سے بھی اوپر چلی گئی تھی۔
روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں گذشتہ سال ہونے والے بے تحاشا اضافے نے ملکی درآمدات کو مہنگا کیا تو دوسری جانب اس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کی شرح میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان نے کہا کہ فروری کے مہینے میں ڈالر 161 روپے پر ٹریڈ ہو رہا تھا جو اب گر کر 155.70 تک آن پہنچا ہے۔ کی قیمت حالیہ دنوں میں 154 تک بھی گر گئی لیکن اس کی خریداری کی وجہ سے یہ ایک بار پھر 155 تک چلی گئی ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ماہرِ معیشت خرم شہزاد کے تجزیے کے مطابق اپنی بلند ترین سطح کے مقابلے میں آج ڈالر کی قدر 7.5 فیصد کے لگ بھگ گر چکی ہے۔
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافے پر بات کرتے ہوئے ملک بوستان نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں مقامی کرنسی کی قدر میں ہونے والے اضافے کی کئی وجوہات ہیں جن میں درآمدات میں کمی، ترسیلات زر اور برآمدات میں اضافہ، روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ملک میں آنے والی سرمایہ کاری اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کا مؤخر ہونا شامل ہے۔ درآمدات میں مسلسل کمی نے مقامی کرنسی کو بہت زیادہ سہارا دیا جس کی وجہ سے بیرون ملک ڈالر کی منتقلی میں کمی دیکھنے میں آئی۔ برآمدات میں ہونے والے اضافے نے بھی روپے کو سہارا دیا تو دوسری جانب بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم بھی روپے کی قدر میں اضافے کا باعث بنیں جس کی وجہ سے مجموعی طور پر کرنٹ اکاؤنٹ یعنی ’جاری کھاتے‘ سرپلس ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ملک بھیجی جانے والی رقوم دو ارب ڈالر ماہانہ سے زائد ہیں۔ پاکستان ہندوستان، چین اور فلپائن کے بعد دنیا میں ترسیلات زر وصول کرنے والا چوتھا بڑا ملک بن چکا ہے جو ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے قرض پروگرام کی بحالی بھی ایک اہم وجوہات میں سے ایک ہیں۔ ڈالر کی قیمت 154 روپے سے نیچے 150 روپے تک جا سکتی ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق موجودہ مالی سال کے پہلے آٹھ مہینوں میں ترسیلات زر کی مجموعی مالیت 18 ڈالر سے زائد ہے اور مالی سال کے اختتام تک ان کا 28 ارب ڈالر سے اوپر رہنے کا امکان ہے۔
ملک بوستان نے کہا کہ ڈالر کی قیمت زیادہ نیچے جا سکتی تھی تاہم ملک کو گندم اور چینی کی درآمد کی وجہ سے اس مالی سال میں اب تک چھ ارب ڈالر خرچ کرنے پڑے جس نے ڈالر کی طلب کو بڑھا دیا تھا۔ ملک کے زرمبادلہ ذخائر اس وقت 20 ارب ڈالر ہیں اگر چینی اور گندم کے ساتھ دوسری چیزوں کی امپورٹ نہ کی جاتی تو ملک کے زرمبادلہ ذخائر 30 ارب ڈالر تک جا سکتے تھے۔
اُنھوں نے ڈالر کی قیمت نیچے آنے کی وجہ سے ملک کے برآمدی شعبے کو نقصان کا تاثر مسترد کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ برآمدی شعبے کے لیے ڈالر کی معقول قیمت 145سے 154 روپے کے درمیان ہے اور اس سطح پر برآمدی شعبہ بہتر طریقے سے اپنا کاروبار جاری رکھ سکتا ہے۔