اسلام آباد: (مدثر علی رانا) بیرونی ادائیگیوں کا بوجھ آئے روز بڑھنے لگا۔ دسمبر 2023 تک 22 ارب ڈالر سے زائد ادائیگیاں واجب الادا ہیں، دوسری جانب رواں مالی سال کے دوران ترسیلات زر میں اب تک 11 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
ملک کو درپیش معاشی چیلنجز میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا، ایک طرف زرمبادلہ کے ذخائر گزشتہ 9 برسوں کی کم ترین سطح پر ہیں، دوسری جانب دسمبر 2023 تک 22 ارب ڈالر سے زائد کی ادائیگیاں باقی ہیں۔
چینی کمرشل بنک کی جانب سے 70 کروڑ ڈالر کا قرض موصول ہونے کے بعد مرکزی بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر 3 ارب 80 کروڑ ڈالر ہو گئے ہیں، تاہم یہ موجودہ ذخائر بھی تین ہفتوں کے امپورٹ بل کیلئے ناکافی قرار دیئے جا رہے ہیں جبکہ حکومت کو جون تک عالمی بینک، اے ڈی بی سمیت کمرشل قرضوں کی واپسی کیلئے 9ارب ڈالر کا انتظام کرنا ہو گا۔
ڈالر ان فلو دیکھا جائے تو 3 ارب ڈالر جینوا کانفرنس کے تحت ملنے کا امکان ہے، معاہدہ ہو جائے تو 1 ارب 20 کروڑ ڈالر آئی ایم ایف سے مل سکتے ہیں، سعودی عرب اور یو اے ای سے 2 ارب ڈالر ملنے کا بھی امکان ہے۔
سٹیٹ بنک کے مطابق ملک کے موجودہ مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب 26 کروڑ ڈالر ہیں، سعودی عرب کی سیف ڈیپازٹ نکال دیں تو حکومت کے پاس نا صرف امپورٹ بل کے پیسے نہیں بلکہ ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے کیلئے 12 ارب ڈالر کا شارٹ فال بھی ہے۔
اقتصادی ماہرین کے نزدیک زرمبادلہ کے ذخائر میں عدم استحکام کے باعث ہی روپیہ کی قدر میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کیلئے آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر ہے جس کے بعد دیگر مالیاتی اداروں سے بھی ڈالر ان فلو بڑھنے کا امکان ہوگا۔
ایک ماہ کی اوسط ملکی درآمدات ساڑھے 5ارب تک ہیں، دوسری جانب ترسیلات زر میں جولائی سے جنوری تک گزشتہ سال کی نسبت 11 ارب ڈالر کی کمی ہوئی جو 16ارب ڈالر رہیں، کرنٹ اکاونٹ خسارہ بھی 4 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
ڈالر کی شدید کمی کے باعث نوبت یہ آ چکی ہے کہ ادویات کے خام مال سمیت بڑی صنعتوں کی ایل سیز نہیں کھل رہیں۔