کرکٹ امپائرز کے بدترین فیصلے

Last Updated On 19 April,2020 06:22 pm

لاہور: (دنیا میگزین) اب ڈی آر ایس نے کرکٹ کے بہت سارے معاملات حل کر دیئے ہیں لیکن امپائرنگ کے بدترین فیصلے بھی یاد رکھے جائیں گے۔

یہ 1987ء کے ورلڈ کپ کا واقعہ ہے۔ لاہور میں پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین سیمی فائنل میچ ہو رہا تھا۔ اس وقت آسٹریلیا کی ٹیم زیادہ تر نئے کھلاڑیوں پر مشتمل تھی لیکن پھر بھی اس نے کافی اچھی کارکردگی دکھائی تھی۔

پاکستانی ٹیم اس ٹورنامنٹ کی فیورٹ تھی۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ سیمی فائنل آسٹریلیا جیت جائے گا لیکن پھر انہونی ہو گئی۔ آسٹریلیا کی جیت میں جہاں پاکستانی کھلاڑیوں کی غلطیاں شامل تھیں وہاں امپائرڈ کی برڈ نے ایک ایسا فیصلہ دیا جس سے ورلڈ کپ کا نقشہ ہی بدل گیا، وہ فیصلہ کیا تھا؟

عمران خان اور جاوید میاں داد کریز پر تھے اور اپنی ٹیم کو فتح کی طرف لے جا رہے تھے۔ ٹارگٹ 266 رنز تھا۔ اچانک ڈکی برڈ نے عمران خان کو وکٹوں کے پیچھے کیچ دینے پر آئوٹ قرار دے دیا۔ یہ ایک بدترین فیصلہ تھا۔ عمران خان کے بلے نے گیند کو نہیں چھوا تھا عمران خان نے اس فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا اس وقت میچ انتہائی اہم مرحلے میں داخل ہو چکا تھا۔

پاکستان کے ابتدائی بلے بازوں کی ناکامی کے بعد عمران خان اور جاوید میاں داد نے ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لے لی تھی۔ ضرور یہ درست ہے کہ امپائر بھی انسان ہوتے ہیں اور غلطی ان سے ہی ہو جاتی ہے لیکن بعض اوقات ان کا ایک غلط فیصلہ پورے میچ کا نقشہ بدل دیتا ہے اور یہی کچھ ہوا۔

عمران خان کو آؤٹ دیئے جانے کے بعد پاکستانی کھلاڑی مطلوبہ ہدف حاصل نہ کر سکے اور پاکستان غیر متوقع ڈر پر سیمی فائنل ہار گیا۔ پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا۔

اگرچہ ڈکی برڈ نے بعد میں اپنی غلطی تسلیم کر لی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا نقصان تو ہو چکا تھا۔ اس کے بعد عمران خان نے غیر جانبدار امپائرز کے تقرر کا مطالبہ کیا۔

ان کی مسلسل کاوشوں کی وجہ سے آئی سی سی نے غیر جانبدار امپائرز کا تقرر شروع کر دیا۔ اگرچہ غیر جانبدار امپائرز بھی غلطیاں کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں لیکن ان کے تقرر سے امپائرنگ پر تنقید کافی حد تک کم ہو گئی۔

آخر ڈکی براڈ بھی تو غیر جانبدار امپائر تھے لیکن غلطی ان سے بھی ہو گئی اب بھی بے شمار لوگ یہ کہتے ہیں کہ ڈکی برڈ نے عمران خان کو غلط آئوٹ دے کر پاکستان سے ورلڈ کپ چھین لیا۔

وقت کے ساتھ ٹیکنالوجی ترقی کرتی چلی گئی۔ اب ڈی آر ایس ہے جس کے تحت امپائرز کے غلط فیصلے درست کئے جاتے ہیں لیکن اندازہ لگایئے کہ جب یہ سسٹم نہیں تھا تو بلے باز کو کتنی مصیبت اٹھانا پڑتی تھی۔ وہ امپائرز کے فیصلے کو مسترد بھی نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی کوئی اور مطالبہ کر سکتا تھا بس یہ ہے کہ وہ امپائرز کے فیصلے کو قسمت کا لکھا ہوا مان کر پویلین کی طرف لوٹ جاتا تھا۔

ایک زمانہ تھا جب ویسٹ انڈیز اور بھارت کی امپائرنگ کو بدترین کہا جاتا تھا۔ 1979-80ء میں جب پاکستانی ٹیم آصف اقبال کی قیادت میں بھارت گئی تو وسیم راجہ نے پوری سیریز میں شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا۔

اگرچہ بھارتی امپائروں نے بہت تعصب کا مظاہرہ کیا۔ خاص طور پر جاوید میاں داد ان کے نشانے پر تھے۔ دہلی ٹیسٹ میں وسیم راجہ کو 97 کے انفرادی سکور پر امپائر نے ایل بی ڈبلیو قرار دے دیا۔

وسیم راجہ جیسے سنجیدہ کھلاڑی نے احتجاج کیا اور امپائر کو بلے کے اشارے سے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ آئوٹ نہیں ہیں اور گیند آف سیٹمپ سے باہر جا رہی تھی لیکن امپائر نے انہیں آئوٹ قرار دے کر انہیں ایک شاندار سنچری کرنے سے محروم کر دیا۔

2000ء میں ویسٹ انڈیز میں پاکستان تیسرا اور آخری ٹیسٹ جیت رہا تھا لیکن ویسٹ انڈیز امپائر نے دوبار جمی ایڈمز کوناٹ آئوٹ قرار دے کر پاکستان کو فتح سے محروم کر دیا۔ جمی ایڈمز ایک بار ایل بی ڈبلیو آئوٹ تھے اور دوسری طرف وکٹ کیپر معین خان نے ان کا کیچ پکڑا لیکن انہیں آئوٹ نہیں دیا گیا اور یوں پاکستان تین ٹیسٹوں کی یہ سریز 1-0 سے ہار گیا۔

1999ء کے ورلڈ کپ کے لیگ میچ میں شعیب اختر نے آسٹریلوی کپتان سٹیووا کو ایل بی ڈبلیو کر دیا تھا لیکن امپائر نے آئوٹ نہیں دیا۔ اس امپائر (غالباً ڈیرل ہیئر) سے شعیب اختر کی اس سے پہلے ہلکی سی تلخ کلامی ہوئی تھی۔ امپائر نے شعیب اختر کی اپیل مسترد کر کے کھلے تعصب کا مظاہرہ کیا لیکن جلد ہی اسی امپائر کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب شعیب اختر نے سٹیووا کو کلین بولڈ کر دیا۔

انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان ایک ٹیسٹ میچ میں آسٹریلیا کے کھلاڑی گلسپی 91 رنز پر کھیل رہے تھے انہوں نے انگلینڈ کے بائولر کالنگ وڈ کی ایک گیند کو چھوڑا لیکن انہیں آئوٹ قرار دے دیا گیا۔ کرکٹ شائقین حیرت کا مجسمہ بن گئے۔ یہ ایک بدترین فیصلہ تھا گلسپی کو بھی یقینا یہ فیصلہ اب تک یاد ہو گا اور وہ اب بھی امپائر کو کوستے ہوں گے۔

نیوزی لینڈ کے خلاف ایک ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کے اینڈریو فلنٹوف کے خلاف وکٹوں کے پیچھے کیچ آئوٹ کی اپیل کی گئی تو انہیں آئوٹ دے دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بائولر نے اپیل ہی نہیں کی تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ گیند نے فلنٹوف کے بلے کو بالکل نہیں چھوا۔ فلنٹوف نے اس پر ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ امپائر کی نظر درست نہیں لگتی۔ امپائر کا غلط فیصلہ اس وقت بڑی اذیت کا باعث بنتا ہے جب میچ اہم مرحلے میں داخل ہو چکا ہو۔

آسٹریلیا کے جسٹن لینگر، جنوبی افریقہ کے اے بی ڈی ویلیئرز اور انگلینڈ کے براڈ کا سلپ میں کیچ پکڑا گیا لیکن انہیں آئوٹ قرار نہیں دیا گیا۔ یہ نہایت عجیب فیصلے تھے۔ اگر نوبال بھی نہیں تھا تو پھر کیچ آئوٹ کیوں نہیں دیا گیا اور تینوں فیصلے بدترین تھے۔

اسی طرح ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک میچ میں آسٹریلیا کے جیف لاسن کو آئوٹ نہیں دیا گیا، حالانکہ وہ کریز سے باہر تھے۔ اس فیصلے کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بھارتی شائقین اگر کسی امپائر کو سخت ناپسند کرتے ہیں تو وہ ہیں جمیکا کے سٹوبکز۔ سٹیوبکنر نے دوبار سچن ٹنڈولکر کو غلط آئوٹ دیا تھا۔

ایک ٹیسٹ میچ میں ٹنڈولکر کے ہیڈ پر لگی لیکن یہ گیند خاصی اوپر لگی تھی اس کے باوجود سٹیوبکنر نے انہیں ایل بی ڈبلیو آئوٹ قرار دے دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آسٹریلیا کے کھلاڑیوں نے جب مل کر اپیل کی تو بکنر نے آئوٹ نہیں دیا لیکن جب گلسپی نے مڑ کر بھرپور انداز میں اپیل کی تو بکنر نے انگلی کھڑی کر دی اس پر بھارتی عوام سخت غصے میں آ گئے اور انہوں نے سٹیوبکنر کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔

اب ذرا بارڈر گواسکر ٹرافی کے ایک میچ کا ذکر ہو جائے۔ یہ میچ آسٹریلیا اور بھارت کے درمیان سڈنی میں کھیلا گیا اسی میچ میں بھارتی بائولر ہربھجن سنگھ پر نسلی امتیاز پر مبنی فقرے کسنے کا الزام عائد کیا گیا۔ اس ٹیسٹ میں سروگنگولی کی ایک گیند کو رکی پونٹنگ نے کھیلا اور گیند پونٹنگ کے بلے کے کنارے کو چھوتی ہوئی وکٹ کیپر ایم ایس دھونی کے ہاتھوں میں گئی لیکن رکی پونٹنگ کو آئوٹ نہیں دیا گیا۔ امپائر کے اس غلط فیصلے پر بھی بہت شور مچایا گیا۔

ظاہر ہے جب آئوٹ نہ دینے کی کوئی معقول وجہ نہ ہو تو امپائر پر تنقید کے پتھر برسائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر جب ایک بڑے کھلاڑی کو ایسا موقع دیا جائے گا تو وہ اس کے لئے اور اس کی ٹیم کے لئے نہایت سودمند ہوتا ہے۔ بہرحال یہ بھی ایک بہت برا فیصلہ تھا۔

2005ء میں فیصل آباد میں انگلینڈ کیخلاف ٹیسٹ میچ میں انضمام الحق کو غلط آئوٹ قرار دیا گیا حالانکہ وہ کریز سے اس لئے باہر آئے تھے کہ زخمی ہونے سے بچ سکیں لیکن شاید امپائر کو ان ضابطوں کا علم ہی نہیں تھا۔ ان کو آئی سی سی کے نئے قوانین کے بارے میں اچھی طرح علم ہونا چاہیے تھا۔ بہرحال انضمام الحق کے ساتھ اچھا نہیں ہوا اور انہیں پویلین کی راہ لینا پڑی۔

اب ذرا پاکستان کے 1986-87ء کے دورہ بھارت کی بات کرتے ہیں جب پاکستان نے بنگلور ٹیسٹ جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ اس میں سنیل گواسکر کو کم از کم دوبار اقبال قاسم کی گیند پر آئوٹ قرار نہیں دیا گیا۔

پاکستان کی فتح کی راہ میں صرف سنیل گواسکر ہی تھے جو بڑی استقامت سے پاکستانی بائولرز کا مقابلہ کر رہے تھے، انہوں نے اس میچ میں 96 رنز بنائے اور ان کی اس اننگز کو یادگار کہا جاتا ہے لیکن ان کی اس اننگز میں بھارتی امپائرز نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ ایک بار وہ ایل بی ڈبلیو آئوٹ تھے اور ایک بار وکٹ کیپر سلیم یوسف نے وکٹوں کے پیچھے ان کا کیچ لیا تھا لیکن وہ امپائر کی مہربانی سے بچ گئے۔ بالآخر انہیں اقبال قاسم نے ہی آئوٹ کیا۔

پاکستانی کھلاڑیوں نے سنیل گواسکر کو آئوٹ نہ دینے پر بہت احتجاج کیا۔ ادھر ٹی وی پر میچ دیکھنے والے پاکستانی عوام بھی سخت غصے میں تھے۔ لگ یہ رہا تھا کہ اگر امپائرنگ کا یہی معیار رہا تو بھارت یہ میچ بھی جیت جائے گا اور سیریز بھی۔ لیکن اس بات کو ذہن میں رکھیے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب ڈی آر ایس نہیں تھا اور سب کچھ امپائر کے ہاتھوں میں تھا۔ اسی طرح 1978-79ء میں پاک بھارت سیریز میں کراچی ٹیسٹ میں سرفراز نواز کی گیند پر سنیل گواسکر وکٹوں کے پیچھے وسیم باری کے ہاتھوں کیچ آئوٹ ہو گئے تھے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستانی امپائر نے انہیں آئوٹ نہیں دیا۔ بعد میں سنیل گواسکر نے تسلیم کیا کہ وہ آئوٹ تھے۔

ڈی آر ایس سے پہلے ویسٹ انڈیز کے امپائرز کے فیصلوں پر بھی سخت تنقید کی جاتی تھی۔ امپائرز کے ساتھ ساتھ ان کے کرکٹ شائقین کا رویہ بھی سخت ناپسندیدہ تھا۔ دنیا کی ہر ٹیم کے لئے ویسٹ انڈیز میں کھیلنا اور پھر کامیابی حاصل کرنا ایک کڑی آزمائش سے کم نہ تھا۔

1971ء میں بھارت کی ٹیم جب ویسٹ انڈیز گئی تو سنیل گواسکر نے پانچ ٹیسٹ میچوں میں 700 سے زیادہ رنز بنائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ جرات کا مظاہرہ نہ کرتے تو یہ ناممکن تھا کیونکہ ویسٹ انڈیز کے امپائر وہاں کے شائقین کا رویہ بہت ناروا تھا۔

وہ اپنے فاسٹ بائولرز کو بار بار کہتے تھے کہ اس بلے باز کو جان سے مار دو اسے زخمی کر دو اور امپائرز تو ایسے تھے کہ بس پیڈ پر گیند لگنے کا انتظار کرتے تھے اور بائولر کی اپیل سے پہلے ہی ان کی انگلی کھڑی ہو جاتی تھی۔

1976-77ء میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کا دورہ کیا تو پانچ ٹیسٹ میچوں میں سیریز کھیلی گئی۔ پاکستانی ٹیم کو بھی بہت غیر معیاری امپائرنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ ماجد خان، مشتاق محمد اور ظہیر عباس غلط فیصلوں کا شکار ہوئے۔

وسیم راجہ خوش قسمتی سے بچتے رہے اور انہوں نے 500 سے زیادہ رنز بنائے ۔ 1974-75ء میں ویسٹ انڈیز نے بھارت کا دورہ کیا اور غیر معیاری امپائرنگ کی شکایت کی۔ ویسٹ انڈیز کے کپتان کلائیو لائیڈ سے جب پوچھا گیا کہ آپ کے ہاں بھی امپائرنگ کا معیار بہت پست ہے اور ہر ٹیم کو ویسٹ انڈیز کی امپائرنگ سے بھی بہت شکایات ہیں اس پر کلائیو لائیڈ خاموش رہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر امپائر ایک کھلاڑی کو ناٹ آئوٹ قرار دے جب کہ وہ صاف آئوٹ ہوتا ہے تو بلے باز کی سپورٹس نہیں سپرٹ کہاں چلی جاتی ہے؟ تو کیا ان کا فرض نہیں بنتا کہ وہ خود ہی میدان چھوڑ دیں ایک کھلاڑی کو اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ وہ آئوٹ ہے یا نہیں۔ لیکن ایسا شاذ ہی ہوتا ہے راقم نے خود بڑے بڑے بلے بازوں کو دیکھا ہے جو آئوٹ ہو کر بھی ناٹ آئوٹ قرار پاتے تھے اور بڑی ڈھٹائی سے کھیلتے رہتے تھے۔

سنیل گواسکر کی مثال لے لیں کیا انہیں بنگلور اور کراچی ٹیسٹ میں یہ علم نہیں تھا کہ وہ آئوٹ ہو چکے ہیں لیکن وہ پویلین واپس نہیں گئے اتنے بڑے کھلاڑی سے یہ توقع ہرگز نہیں تھی اسی طرح کئی اور بڑے کھلاڑیوں کی یاد آتی ہے جو سپورٹس نہیں سپرٹ سے عاری تھے۔

1998-99ء کے دہلی ٹیسٹ میں جب انیل کمبلے کے پاکستان کے خلاف 10 وکٹیں لیں تو ان میں کم از کم تین فیصلے غلط تھے۔ لیکن نیوزی لینڈ کے امپائر سٹوئون نے کمال کر دکھایا۔

بقول بشن سنگھ بیدی سٹیوئون ، بس ڈن ڈنائون کرتا چلا گیاپاکستانی کھلاڑی خاموشی سے پویلین کی طرف لوٹ گئے کسی بھارتی کھلاڑی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ غلط آئوٹ دیئے جانے والے بلے بازوں کو واپس بلا لے، حالانکہ انہیں اچھی طرح علم تھا کہ امپائر غلط فیصلے دے رہا ہے۔

راقم کو یاد ہے کہ ایک بار پاکستان میں بھارت کے خلاف ایک ٹیسٹ میچ کے دوران سری کانت کو آئوٹ دیا گیا تو انہوں نے اس پر احتجاج کیا۔ وہ پویلین واپس جا ہے تھے کہ پاکستانی کپتان عمران خان نے انہیں واپس بلا لیا اور پھر کیا ہوا؟ عاقب جاوید کی اگلی ہی گیند پر سری کانت کلین بولڈ ہو گئے۔ کیا بات ہے ماجد خان کی۔

جنہوں نے آئوٹ ہوتے تھے تو امپائر کی طرف دیکھے بغیر ہی پویلین لوٹ جاتے تھے۔ ایک دفعہ آسٹریلیا میں ایک میچ کے دوان کے خلاف کیچ کی اپیل ہوئی۔ امپائر نے انہیں آئوٹ نہیں دیا لیکن وہ سمجھتے تھے کہ وہ آئوٹ ہیں اس لئے وہ خود ہی پویلین لوٹ گئے۔ بہرحال اب ڈی آر ایس نے بہت سارے معاملات حل کر دیئے ہیں لیکن مپائرنگ کے بدترین فیصلے بھی یاد رکھے جائیں گے۔

تحریر: عبدالحفیظ ظفر