کراچی (روزنامہ دنیا ) سال رواں میں یکم جنوری تا 31 اگست تک شہر کے مختلف علاقوں سے 3208 کاریں ،17106 موٹر سائیکلیں اور 13677 موبائل فونز چوری ہوئے یا چھین لیے گئے جبکہ گاڑیاں اور موبائل فونز چھینے جانے کے دوران مزاحمت کرنے پر ملزمان کی فائرنگ سے متعدد افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔
اس طرح سال رواں میں کراچی کے شہریوں سے 4 ارب سے زائد مالیت کی گاڑیاں و موبائل فونز چوری یا چھین لیے گئے۔ تفصیلات کے مطابق سال 2018 میں یکم جنوری سے 31 اگست کے دوران پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جہاں شہر میں ٹارگٹ کلنگ پر قابو پانے میں کامیاب رہے وہیں دیگر جرائم پر قابو نہیں پا سکے ، وہ گاڑیوں اور موبائل فونز کے چوری یا چھینے جانے کے واقعات پر قابو پانے اور ان واقعات میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوئی حکمت عملی بھی تیار نہیں کر سکے ۔
یہ صورت حال کراچی پولیس کی گاڑیوں کے چوری وچھینے جانے کے واقعات میں ملوث ملزمان کی سرکوبی کے لیے بنائے گئے خصوصی اینٹی کار لفٹنگ سیل کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ، اگر ہم سال رواں میں گاڑیوں اور موبائل فونز کے چوری یا چھینے جانے کے واقعات کا مرتب کیے جانے والے ریکارڈ سے تقابلی جائزہ لیں تو ماہ جنوری میں شہر کے مختلف علاقوں میں1956 موٹر سائیکلیں، 424 کاریں اور1868موبائل فونز چوری یا چھین لیے گئے ۔ اسی طرح فروری کے مہینے میں 1805موٹر سائیکلیں ،358کاریں اور1759موبائل فونز۔ مارچ کے مہینے میں1530 موٹر سائیکلیں419 کاریں اور1575موبائل فونز۔ اپریل کے مہینے میں1580 موٹر سائیکلیں، 351 کاریں اور1601موبائل فونز ۔مئی کے مہینے میں1826 موٹر سائیکلیں ،404 کاریں، 1681موبائل فونز چوری یا چھین لیے گئے ۔
جون کے مہینے میں1957 موٹر سائیکلیں ،411 کاریں اور1692موبائل فونز چوری یا چھین لیے گئے ۔ جولائی کے مہینے میں 2646موٹر سائیکلیں ،480 کاریں اور1740موبائل فونز چوری یا چھین لیے گئے ۔ اگست کے مہینے میں 2267موٹر سائیکلیں ،361 کاریں اور1761موبائل فونز چوری یا چھین لیے گئے ۔ اس طرح رواں سال میں 4ارب سے زائد مالیت کی موٹر سائیکلیں، کاریں اورموبائل فونز چوری یا چھین لیے گئے ، جب کہ گاڑیاں اور موبائل فونز چھینے جانے کے واقعات میں ملزمان کی فائرنگ سے متعدد افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی بھی ہوئے ہیں۔ دریں اثناء سندھ پولیس کی جانب سے مرتب کیے جانے والے ریکارڈ کے مطابق سال رواں میں 16083موٹر سائیکلیں چوری اور6201موٹر سائیکلیں چھین لی گئیں، جب کہ 3222 کاریں چوری اور 846 کاریں چھین لی گئیں۔
اسی طرح 10501موبائل فونز چوری یا چھین لیے گئے ۔ پولیس ذرائع کے مطابق پولیس اور سی پی ایل سی کی جانب سے مرتب کیے جانے والے ریکارڈ میں تضاد ہے ۔ پولیس ذرائع کے مطابق اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پولیس گاڑیوں کے چوری یا چھینے جانے کے واقعات کی ایف آئی آر درج نہیں کرتی، جس کی وجہ سے یہ تضاد پایا جاتا ہے ۔