لہری: ایک لاثانی کامیڈین

Published On 13 September,2022 10:43 am

لاہور: (ارشد لئیق) لطافت اور مزاح نگاری پر برسوں راج کرنے والے پاکستانی فلمی تاریخ عظیم مزاحیہ اداکار لہری 13ستمبر 2012ء کے دن اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے ۔ بزلہ سنجی، برجستگی اور حاضر دماغی انہیں خدا کی طرف سے عنایت کردہ خوبیاں تھیں جن کی بدولت انہوں نے دنیا بھر میں شہرت پائی۔

اگر ہم پاکستانی فلمی صنعت کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت نے بڑے شاندار مزاحیہ اداکار پیدا کئے ہیں۔ ان میں نذر، ظریف، منور ظریف، اے شاہ شکار پوری، ننھا، البیلا، علی اعجاز، رنگیلا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ مزاحیہ اداکار ایسے تھے جو باصلاحیت ہونے کے باوجود زیادہ شہرت نہ حاصل کر سکے۔ ان میں خلیفہ نذیر، چکرم، نرالا، بانکا اور خالد سلیم موٹا کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ایک اداکار ایسا تھا جس کا انداز سب سے جداگانہ تھا۔ ان کی مزاحیہ اداکاری کا اسلوب اس قدر منفرد تھا کہ کوئی دوسرا ان کے قریب نہ پھٹک سکا۔ ان کا نام تھا لہری۔

2جنوری 1929ء کو کانپور( بھارت) میں پیدا ہونے والے لہری کا اصل نام سفیر اللہ صدیقی تھا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آ گئے اور کراچی میں رہائش اختیار کرلی جہاں ذریعہ معاش کیلئے مختلف کام کئے۔ فلمی صنعت میں شمولیت سے پہلے وہ ریڈیو اور سٹیج پر اپنی شاندار اداکاری کے جوہر دکھاتے رہے۔

1955ء میں کراچی میں فلمسازی کا آغاز ہوا تو انہیں فلم ’’انوکھی‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ فلم ناکام ہوئی تو لہری کو کراچی کے دیگر بڑے فنکاروں احمد رشدی اور مہدی حسن کی طرح اپنا آپ منوانے میں خاصا وقت لگا۔ فلم ’’رات کے راہی ‘‘ میں انہیں اداکارہ شمیم آرا کے مقابل سیکنڈ ہیرو کا چانس ملااور ان پر فلم کے متعدد گیت بھی فلمائے گئے۔ اس فلم کی کامیابی نے ان پر فلمی دنیا کے دروازے کھول دیئے۔ اداکار و فلمساز الیاس کاشمیری کی دعوت پر لاہور آئے جہان انہیں فلم ’’عشق پر زور نہیں ‘‘ میں کاسٹ کیا گیا۔

لہری نے زیادہ تر اردو فلموں میں کام کیا۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ اردو فلموں کے ایک عہد ساز، منفرد اور مقبول اداکار تھے۔ اگرچہ وہ کچھ پنجابی فلموں میں بھی جلوہ گر ہوئے لیکن انہیں شہرت اردو فلموں نے ہی دی۔ اصل میں وہ پنجابی زبان روانی سے بول نہیں سکتے تھے اس لئے انہوں نے یہ محسوس کر لیا کہ پنجابی فلمیں ان کا میدان نہیں۔

لہری نے لا تعداد فلموں میں کام کیا۔ جن میں سے ’’انصاف، سہیلی، سسرال، نئی لیلیٰ نیا مجنوں، روڈ ٹو سوات، فیصلہ اور رات کے راہی‘‘ میں ان کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔ ان کے علاوہ ’’دامن، دل لگی، انجمن، آبرو، ایسا بھی ہوتا ہے، چاہت، تہذیب، شرارت، صاعقہ، نادانی‘‘ اور دوسری فلمیں شامل ہیں۔ لہری کو گیارہ نگار ایوارڈ ملے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ جن فلموں میں شاندار اداکاری کرنے پر ان کو یہ ایوارڈ دیئے گئے ان میں ’’دامن، یغام، کنیز میں وہ نہیں، صاعقہ، نئی لیلیٰ نیا مجنوں، انجمن، دل لگی، آج اور کل، نیا انداز، صائمہ اور بیوی ہو تو ایسی‘‘ شامل ہیں۔

ان کی اداکاری میں مزاح کے علاوہ طنز کی کاٹ ہوتی تھی جو شائقین کو بہت بھاتی تھی۔ وہ مزاح کیلئے جسمانی حرکات کے بجائے مکالموں کی منفرد ادائیگی سے کام لیتے تھے، ان کا لہجہ دھیما تھا اور بعض اوقات وہ الفاظ کو ٹوئسٹ دیتے تھے جس سے لوگوں کا ہنسی پر قابو پانا مشکل ہو جاتا۔ مثلاً کرائے کو ’’کیرائے‘‘ اور پٹرول کو ’’پٹرول‘‘ اس انوکھے انداز میں کہتے تھے کہ لوگوں کے منہ سے واہ واہ نکلتی۔ بعض اوقات وہ خود کلامی بھی کرتے تھے۔

بعض فلمی نقاد ان کی ایکٹنگ کو انڈر ایکٹنگ کہتے تھے۔ بہرحال وہ ایک لاثانی کامیڈین تھے۔ بالکل اسی طرح ظریف، منور ظریف، ننھا اور علی اعجاز نے مزاحیہ اداکاری میں مکالموں کی برجستگی کو خاصہ بنایا۔ یہ اداکار بات سے بات نکالنے میں ماہر تھے اور ان کی بے ساختہ اداکاری بڑا گہرا تاثر چھوڑتی تھی۔ لہری نے رنگیلا، منور ظریف اور ننھا کے ساتھ بھی متعدد فلموں میں کام کیا۔ منور ظریف کے ساتھ ان کی دو فلموں’’شرارت اور پیار کا موسم‘‘کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا’’ پیار کا موسم‘‘ میں انہوں نے ایک تھیڑ کے مالک کا کردار ادا کیا جو اپنی کمپنی کی ہیروئن سے خاموش محبت کرتا ہے اور اسی غلط فہمی میں مبتلا رہتا ہے کہ وہ ہیروئن اس سے شادی کرنے پر رضامند ہو جائے گی۔ لیکن اس کے خواب اس وقت چکنا چور ہو جاتے ہیں جب وہ ہیروئن اسے یہ بتاتی ہے کہ وہ اسی تھیڑ کے ایک ساتھی اداکار سے محبت کرتی ہے۔ اس پر وہ مالک بڑے صبر اور حوصلے کا ثبوت دیتا ہے اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان دونوں کے راستے سے ہٹ جاتا ہے۔ اس فلم میں لہری نے کامیڈی بھی کی اور ایک ’’شریف النفس‘‘ ولن کا کردار بھی ادا کیا۔1986ء میں لہری پر بیماریوں نے حملہ کر دیا۔ ان کی آخری فلم زیبا بختیار کی ’’بابو‘‘ تھی۔ وہ طویل عرصے تک بستر علالت پر رہے۔ وہ ذیابیطس، پھیپھڑوں اور گردوں کی بیماری میں مبتلا تھے۔13ستمبر 2012ء کو فرشتہ اجل آن پہنچا اور وہ عالم جاوداں کو سدھار گئے۔

ارشد لئیق سینئر صحافی ہیں، ملک کے موقر جریدوں میں ان کے سینکڑوں مضامین شائع ہو چکے ہیں۔
 

Advertisement