نیو یارک: (ویب ڈیسک) سوشل میڈیا کی سب سے مشہور ویب سائٹ فیس بک نے عالمی کمپنیوں کی طرف سے اشتہارات کے بائیکاٹ کے اعلانے کیے جانے کے بعد واضح انداز میں اعلان کیا ہے کہ جعلی خبروں کے تدارک کے لیے بڑی مہم جلد شروع کی جائے گی۔
تفصیلات کے مطابق غلط اطلاعات اور نفرت انگیز مواد کو کنٹرول کرنے میں ناکامی پر فیس بک کو اشتہارات نہ دینے کی مہم میں دنیا بھر کی 200 سے زائد کمپنیاں شامل ہوگئی ہیں۔
نسل پرستی، تشدد، جھوٹ اور نفرت کے خلاف کردار ادا نہ کرنے پر فیس بک کے خلاف دنیا بھر کی 200 سے زائد کمپنیاں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں منافع کے لیے نفرت بند کرو (Stop Hate For Profit) مہم میں شامل ہیں۔
ان کمپنیوں میں مائیکرو سافٹ،یونی لیور، ہونڈا، فورڈ، کوکاکولا، پیپسی، اسٹار بکس،چاکلیٹ جائنٹ ہرشیز سمیت دیگر معروف ادارے شامل ہیں۔
اب اس مہم میں کھیلوں کا سازو سامان اور ملبوسات بنانے والی معروف جرمن کمپنیاں ایڈیڈاس اور پوما بھی شامل ہوگئی ہیں اور دونوں کمپنیوں نے فیس بک اور انسٹاگرام کو اشتہارات نہ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
خیال رہے کہ اس بائیکاٹ مہم کی وجہ سے فیس بک کے مالک مارک زکربرگ کو 7 ارب ڈالر سے زائد (تقریباً سوا 11 کھرب پاکستانی روپے)کا نقصان ہو چکا ہے اور اب مزید کمپنیوں کے اعلان کے بعد اس نقصان میں مزید اضافہ ہو گا۔
گزشتہ ہفتے اشتہارات کے بائیکاٹ سے مارک زکر برگ کی دولت کم ہوکر 82.3 ارب ڈالر رہ گئی تھی اور اب فیس بک کے بانی دنیا کے تیسرے امیر ترین آدمی سے چوتھے نمبر پر آگئے ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی اور معروف سوشل میڈیا ویب سائٹ کے خلاف یہ مہم اس وقت شروع ہوئی جب گذشتہ ماہ کے آخر میں امریکا میں پولیس کی حراست میں جارج فلائیڈ نامی ایک سیاہ فام شخص ہلاک ہوگیا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظمیوں کے مطابق فیس بک انتظامیہ نے پولیس کی طرف سے نسل پرستی پر مبنی نفرت انگیز مواد اور غلط معلومات کو آن لائن ہٹانے میں کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا تھا جب کہ مارک زکر برگ نے امریکی صدر ٹرمپ کی متنازع پوسٹوں کے خلاف ایکشن لینے سے بھی انکار کردیا تھا۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق فیس بک کے شمالی یورپ کے لئے فیس بک کے نائب صدر سٹیو ہیچ کا کہنا ہے کہ جعلی خبروں کے تدارک کیلئے ایک مہم شروع کر رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کمپنی عوام کی آواز سننا چاہتی ہے۔
بی بی سی کے مطابق کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانیہ، یورپ، افریقا اور مشرق وسطیٰ میں کی جانے والے اقدامات بہت چھوٹے اور بہت زیادہ دیر سے کیے جا رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک کی طرف سے متعارف کرائی جانے والی مہم کیلئے ویب سائٹ ( StampOutFalseNews.com) متعارف کرائی گئی ہے، جہاں لوگ اپنی رائے کا اظہار کر سکیں گے۔ جہاں پر شہریوں سے آن لائن کچھ سوالات بھی کیے جائیں گے۔
بی بی سی کو ایک انٹرویو کے دوران مسٹر ہیچ کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے شروع ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کی بھرمار ہے جس کے بعد کسی بھی خبر کو جانچنا فوری طور پر مشکل ہو جاتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود کورونا وباء کے دوران بھی ہمارے ادارے کا عملہ دن رات اس کیخلاف برسر پیکار ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر لوگ بے بنیاد اور جعلی خبریں شیئر کریں گے جس سے کوئی نقصان کا اندیشہ ہوتو ہم اس پر بروقت کارروائی کریں گے اور اس مواد کو ہٹا دیں گے۔ اس کے لیے ہم نے سینکڑوں اور ہزاروں کیسز میں کر کے دکھایا ہے۔
دوسری طرف اشتہارات کی بندش کے بعد فیس بک نے نفرت انگیز اشتہارات پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
کمپنی کے مطابق فیس بک ان تمام اشتہاروں پر پابندی عائد کرے گا جو کسی خاص نسل، قومیت، ذات پات، صنف، جنسی رجحان یا کسی کی جسمانی حفاظت یا صحت کے لیے خطرہ ہیں۔
فیس بک کمپنی نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم پر شائع ہونے والے ایسے خبری مواد کو واضح کرے گی جو فیس بک کی پالیسیوں کے خلاف ہو۔
نئی پالیسی میں کسی خاص رنگ و نسل، قومیت، مذہب، ذات، جنسی رجحان، صنف، شناخت اور تارکینِ وطنسے تعلق رکھنے والے افراد کو دوسروں کی صحت اور جان و مال کےلیے خطرہ بنا کر پیش کرنے والے اشتہارات پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔