لاہور: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں کورونا وائرس کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جہاں یہ وباء تیزی سے پھیل رہی ہے وہی پر وائرس سے متعلق جنوبی ایشیا میں افواہوں اور جعلی خبریں بھی پھیلائی جا رہی ہے جو خوف کا باعث بن رہی ہیں۔ اس وقت سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، تاہم یہ عفریت مزید بڑھتی جا رہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق جب بات ہوتی ہے کورونا وائرس سے جنم لینے والی عالمی وبا کووڈ 19 کی تو اس بارے میں حقائق جاننے کے لیے بھی ہمیں خبروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بالخصوص اس وقت معلومات کے حصول کے لیے میڈیا کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے، جب ہمارا کوئی قریبی رشتہ دار یا دوست اس وبا کا شکار نہیں ہوا ہے کیونکہ اس صورت میں ہم اس تکلیف اور تجربے کو ذاتی طور پر سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہو سکتے۔
خبروں سے ہی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس عالمی وبا کی وجہ سے کتنے افراد متاثر یا ہلاک ہوئے، یہ کس قدر موزی ہے اور اس کے معیشت پر کيا اثرات پڑ رہے ہیں اور یہ کہ کتنے لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں۔
دوسری طرف ہم گھروں میں قید ہیں اور تصاویر اور ویڈیوز میں بیابان سڑکوں اور مارکٹیوں کے امیجز دیکھ رہے ہیں۔ کبھی کبھار خریداری کی غرض سے باہر جاتے ہوئے ہمیں اس صورتحال کا صرف حسیاتی تجزبہ ہی ہو سکتا ہے۔
اس صورتحال میں نیوز ادارے ایک مرتبہ پھر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ صرف اسی لیے نہیں کہ یہ نشریاتی ادارے ہمیں مطلع کر رہے ہیں کہ حکومتی پالیسیاں کیا ہیں اور ہمیں صورتحال میں کیسے ردعمل ظاہر کرنا چاہیے بلکہ خبروں کی طرف متوجہ ہونے کی دیگر کئی وجوہات بھی ہیں۔
صورتحال کے تناظر میں میڈیا اداروں سے رجوع کرنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے۔ آن لائن صارفین میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھا جا رہا ہے جبکہ ٹیلی وژن دیکھنے والوں کی شرح بھی بڑھی ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا ہمیں قابل بھروسہ معلومات موصول ہو رہی ہیں؟
سوشل میڈیا جعلی خبروں میں ڈوب چکا ہے۔ صرف اس بارے میں ہی ہزاروں آرٹیکلز اور ویڈیوز موجود ہیں کہ لہسن کس طرح کورونا وائرس کا شافی علاج ممکن بنا سکتا ہے۔ یہ پلیٹ فارمز حقیقی طور پر جھوٹی خبریں و معلومات پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور یہ بات لوگوں کی زندگی کو خطرات میں ڈال سکتی ہے۔
جنوبی ایشیا میں کورونا وائرس کی وبا کے دوران گمراہ کُن معلومات اور افواہیں خوف و ہراس کا سبب بن رہی ہیں۔ پاکستان، بھارت سمیت خطے کے دیگر ملکوں میں لاک ڈاؤن کے دوران متعدد ایسی غلط معلومات اور افواہیں پھیلائی گئیں جن کے سبب عوام میں خوف و ہراس اور بے چینی پھیل گئی ہے۔
پاکستان میں جہاں کورونا وائرس کے سبب نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی ہے۔ سماجی میڈیا پر گمراہ کن ویڈیو شیئر کی گئی جس میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والے دکاندار کو دکان چھوڑ کر بھاگتے دیکھا جا سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق درحقیقت یہ ویڈیو 2015 میں پولیس کے قحبہ خانے پر چھاپے کی ہے جس میں ایک شخص کو بھاگتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔
پاکستانی صارفین کی طرف سے ویڈیو کا پرانا ہونے کی نشاندہی کیے جانے کے باوجود مذکورہ ویڈیو کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب اور واٹس ایپ پر لاکھوں صارفین نے دیکھا۔
خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت میں رواں برس مارچ میں لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے کے بعد غلط معلومات کا پھیلاؤ بھی عروج پر ہے جن میں سیاسی کردار کشی، لاک ڈاؤن میں مزید سختی سے متعلق افواہیں اور فرقہ واریت سے متعلق غلط معلومات کی تشہیر سرِفہرست ہیں۔
بھارت میں لاک ڈاؤن کے دوران ایک ایسی ویڈیو جاری کی گئی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص دوسرے پر پر کلہاڑی سے حملہ کر رہے ہیں۔ تحقیق پر پتہ چلا یہ ویڈیو بھارت کی نہیں تھی۔
ویڈیو کے بارے میں چند صارفین کا کہنا تھا کہ یہ ویڈیو کسی دوسرے ملک کی ہے۔ جبکہ کچھ صارفین کی طرف سے اس ویڈیو کو بھارت میں کرفیو نافذ کرنے کے مطالبے کے بطور ثبوت پیش کیا گیا۔
اے ایف پی نے فروری کے بعد سے اب تک ایشیا میں نافذ کردہ لاک ڈاؤن کے دوران غلط معلومات پر مبنی 200 سے زائد رپورٹس شائع کی ہیں جنہیں اس رپورٹ میں جمع کیا گیا ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران ایشیائی ملک فلپائن میں فیس بک پر ویڈیو شیئر کی گئی۔ جس میں موٹر سائیکل پر سوار شخص کو دکھایا گیا۔ جسے کورونا کے ٹیسٹ کے لیے قائم کردہ چیک پوائنٹ پر نہ رکنے کی وجہ سے گولی مار دی گئی۔
فلپائن میں وائرل ہونے والی یہ ویڈیو درحقیقت پولیس ٹریننگ مشقوں کی تھی۔ جسے ہزاروں لوگوں نے دیکھا۔
تھائی لینڈ میں لاک ڈاؤن کے دوران وائرل ہونے والی ویڈیو میں خریداروں کو ملائیشیا میں لاک ڈاؤن میں سختی کیے جانے کے سبب بے چینی میں خریداری کرتے دیکھا گیا۔
مذکورہ ویڈیو کو فیس بک پر ایسے کمنٹس کے ساتھ شیئر کیا گیا کہ ایسی صورتِ حال کا سامنا تھائی لینڈ کے لوگوں کو بھی ممکنہ طور پر کرنا پڑ سکتا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق مذکورہ ویڈیو لاطینی ملک برازیل میں نومبر 2019ء میں ‘بلیک فرائیڈے’ پر لگنے والی سیل کی تھی۔
آسٹریلیا کی کوئنز لینڈ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں میڈیا کے پروفیسر ایکسل برنس کا کہنا ہے کہ آن لائن غلط معلومات کی تشہیر اس صورت میں ہوتی ہے جب حکومتیں عوام کو صحیح طریقے سے معلومات فراہم نہ کر سکیں۔
برنس کا مزید کہنا تھا کہ غلط معلومات کی تشہیر میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ لوگ کورونا وائرس سے متعلق اپنے سوالات کے جواب جاننا چاہتے ہیں اور جب انہیں جوابات نہیں ملتے تو وہ مطلوبہ معلومات جاننے کے لیے ارد گرد دیکھتے ہیں۔