لاہور: (روزنامہ دنیا) سپریم کورٹ کے حکم کے بعد سندھ اور پنجاب کے 12 ہزار سکیورٹی اہلکار اپنے محکموں میں واپس چلے گئے۔ میزبان پروگرام دنیا کامران خان کے ساتھ کے سوال پر وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے بتایا کہ چیف جسٹس کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پنجاب میں5 ہزار کے قریب سکیورٹی اہلکار لوگوں کی سکیورٹی سے واپس بلا لئے گئے ہیں۔
سندھ کے وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے بتایا کہ ہم نے 7 ہزار سے زیادہ اہلکار واپس لے لئے ہیں۔ میزبان پروگرام نے کہا کچھ عرصہ سے تاثر تھا کہ نیب پنجاب میں متحرک ہے لیکن نیب نے طویل عرصہ کے بعد سندھ میں سیکرٹری بلدیات سندھ کے پرسنل سیکرٹری اور فرنٹ مین رمضان سولنگی کے گھر سے 3 کروڑ روپے سے زائد نقدی، پرائز بانڈ، سو کلو سونا اور دیگر قیمتی اشیا برآمد کی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سندھ حکومت کے اہلکار کتنے مالدار ہو رہے ہیں نیب کا چھاپہ اس کی ایک جھلک تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس طرح کے سینکڑوں رمضان سولنگی حکومت سندھ میں ہیں جو ارب پتی نہیں تو کروڑ پتی ضرور ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی اور سرکاری یونیورسٹیوں کے لئے مستقل وائس چانسلرز کی تلاش شروع ہو گئی ہے۔ پروگرام میں بتایا گیا کہ پنجاب میں ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ 28 میں سے 12 یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز نہیں تھے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران 4 وائس چانسلر مستعفی ہو چکے ہیں جبکہ دو کو عہدے سے فارغ کیا گیا۔
چیف جسٹس کے حکم کے مطابق 6 ہفتوں میں جامعات کے مستقل وائس چانسلرز مقرر کئے جائیں گے۔ اس حوالے سے کالم نگار اور پروفیسر مجاہد منصوری نے بتایا کہ وائس چانسلرز کی تقرریوں کے سلسلے میں قواعد اورنظم و نسق کا بڑا فقدان ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم رضا علی گیلانی نے حکومت کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ وائس چانسلرز کی تقرری کا معیار عدالت کے حکم پر بنایا گیا اس پر ایک سال لگا اس دوران وائس چانسلرز ایڈ ہاک بنیاد پر رہے اب سرچ کمیٹیاں بن گئی ہیں اور ہمیں 6 ہفتوں میں وائس چانسلرز لگانا ہیں لیکن اس وقت 300سے زائد امیدوار ہیں اور ان کی تصدیق کے لئے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔