خواجہ آصف کی نااہلی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا متن

Last Updated On 27 April,2018 08:58 pm

اسلام آباد: (روزنامہ دنیا) اسلام آباد ہائیکورٹ نے گزشتہ روز وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کو تاحیات نااہل قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ انہوں نے اپنی دبئی کی ملازمت چھپائی اور اقامہ تسلیم کیا، اس لیے وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا مکمل متن درج ذیل ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ

1۔ درخواست گزار محمد عثمان ڈار نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 199 (بی ) (1)(ii) کے تحت دائر درخواست میں استدعا کی کہ خواجہ محمد آصف (مدعا علیہ) کی وضاحت مانگی جائے کہ وہ کس قانون کے تحت قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔

2۔ مختصر حقائق یہ ہیں کہ عام انتخابات 11مئی 2013ء کو ہونیوالے انتخابات میں مدعا علیہ نے مسلم لیگ (نواز) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور 92803 ووٹ حاصل کئے۔ درخواست گزار نے 71525ووٹ حاصل کئے جس نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا ۔ مدعا علیہ کی جانب سے جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی کو دیگر امیدواروں نے چیلنج کیا، لاہور ہائی کورٹ کے فاضل الیکشن ٹربیونل نے 17.04.2013کو ایک حکم کے ذریعے الیکشن اپیل نمبر 144اے 2013مسترد کر دی۔ اس حکم نامے کے بعد مدعا علیہ نے الیکشن لڑا اور انہیں کامیاب قرار دیاگیا۔ بعدازاں این اے 110سے ان کے منتخب رکن اسمبلی کا نوٹیفکیشن جاری ہوا، قومی اسمبلی کے رکن کا حلف اٹھانے کے بعد 08.06.2013کو مدعاعلیہ بطور وزیر پانی و بجلی کابینہ میں شامل کر لیا گیا۔ بعدازاں 27.11.2013 میں مدعا علیہ کو وزارت وفاع ملی۔ 04.08.2017 کو مدعا علیہ نے وزیر خارجہ کا حلف اٹھایا۔ مدعا علیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ 1993، 1997، 2002 اور 2008کے عام انتخابات میں بھی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ درخواست میں زیر تصفیہ حقائق درج ذیل ہیں۔

(الف) : کاغذات نامزدگی

مدعا علیہ نے این اے 110سے الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی 30.03.2013 کو عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کے سیکشن 12 تحت فائل کئے۔ سیکشن 12 (2)(ای ) کے تحت کاغذات کے کالم 7 اور 8 میں درج ذیل حقائق بیان کئے۔

7۔ تعلیمی قابلیت بی اے ، ایل ایل بی

8۔ پیشہ : کاروبار

3۔ اپنے دعوے کی تصدیق کیلئے مدعاعلیہ نے متعلقہ دستاویزات کی تصدیق شدہ کاپیاں ساتھ منسلک کرنا تھیں۔ مدعاعلیہ کی دستخط شدہ کاغذات نامزدگی میں درج ذیل بات کا ذکر ہے ؛ “میں خواجہ محمد آصف ولد خواجہ محمد صفدر بیان کرتا ہوں کہ نامزدگی کے فارم میں اپنے بارے میں مکمل تفصیلات کا ذکر نہ کروں تو الیکشن کیلئے میری نامزدگی غیر آئینی ہو گی، یا اگر میری دی گئی معلومات کسی وقت بھی غلط ثابت ہوں تو میرا انتخاب اوّل روز سے کالعدم تصور کیا جائے گا۔

(ب): متحدہ عرب امارات میں ملازمت

مدعاعلیہ نے مختلف اوقات میں انٹرنیشنل مکینکل اینڈ الیکٹریکل کمپنی سے ملازمت کے تین مختلف معاہدے کئے ۔یہ کمپنی متحدہ عرب امارات کے قوانین کے تحت قائم ایک کاروباری ادارہ ہے۔

(i) پہلا معاہدہ: مدعا علیہ نے ملازمت کا پہلا معاہدہ 08.06.2011 میں کیا جو کہ 30.06.2013 تک فعال رہا۔ 06.08.2011 کے معاہدہ کی متعلقہ شقیں درج ذیل ہیں۔

فریق اوّل: انٹرنیشنل مکینکل اینڈ الیکٹریکل کمپنی؛ ملک : یو اے ای۔ پتہ :ٹورسٹ کلب، ابو ظہبی : نمائندہ: الیاس ابراہیم سالوم۔

فریق دوم: خواجہ محمد آصف ولد خواجہ محمد صفدر ؛ قومیت : پاکستانی؛ پاسپورٹ نمبر: AC 1886006 چونکہ دونوں پارٹیاں معاہدے کی مکمل طور پر اہل ہیں اور ان میں باہمی اتفاق سے یہ طے پایا۔

اوّل: فریق دوم قبول کرتا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات میں فریق اوّل قانونی مشیر کے طور پر بنیادی تنخواہ 9000درہم پر کام کرے گا۔
دوم : اس معاہدے کا دورانیہ 03-07-2011 سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ تک ہو گا۔
اے : دونوں فریقین نے اتفاق کیا ہے کہ پہلے چھ ماہ فریق دوم پروبیشن پر کام کرے گا(یہ عرصہ چھ ماہ سے زائد نہیں ہو گا)
بی: محدود مدت ملازمت کا یہ معاہدہ اپنے دورانیہ کے بعد ختم ہو جائے گا، تاہم اگر دونوں فریق معاہد ے کو جاری رکھنا چاہیں، تو انہی شرائط پر مزید ایک سال کیلئے اس کی تجدید نو تصور کی جائے گی۔
سوم: معاہدے پر عمل کے فوری بعد سے فریق دوم کی فضائی آمد و رفت کے تمام اخراجات فریق اوّل کے ذمہ ہونگے ۔
چہارم: اگر فریق دوم لیبر تعلقات سے متعلق 1980کے وفاقی قانون (8)کے شق (120)اور اس میں دی گئی شرائط کی خلاف ورزی کرتا ہے تو فریق اوّل بغیر کسی نوٹس کے فوری طور پر معاہدہ منسوخ کر سکتا ہے ۔
پنجم: وفاقی ایکٹ نمبر (8)کی تمام شقوں سمیت دیگر قوانین کی ان شقوں کا اطلاق بھی معاہدہ ملازمت پر ہوگاجن کا معاہدے کی شرائط میں ذکر نہیں۔
ششم: اس معاہدے کی تین کاپیاں ہیں۔ پہلی کاپی وزارت لیبر کے پاس رہے گی ، معاہدہ کی تصدیق کے بعد ایک ایک کاپی دونوں فریقین کے پاس رہے گی۔
ہفتم: فریق اوّل فریق دوم کو 30دن کی چھٹیاں بمعہ تنخواہ دینے کا پابند ہو گا (بشرطیکہ کی سالانہ چھٹیاں 30دن سے کم نہ ہوں)
ہشتم : دیگر الاؤنسز جوکہ فریق دوم کو دیئے جائینگے :
اے :پوری فیملی کیلئے رہائش؛
بی:سب کیلئے ٹرانسپورٹ۔
سی :دیگر
بنیادی تنخواہ : 9000درہم
کل تنخواہ بمعہ الاؤنس: 9ہزار درہم
نہم : دیگر شرائط :
دہم:کام کے اوقات: آٹھ گھنٹے روزانہ، جوکہ ہفتہ وار 48گھنٹے سے زائد نہیں ہونگے ۔ دکانوں، ہوٹلوں ، ریسٹورنٹس اور چوکیداری کی صورت میں کام کے اوقات 9گھنٹے روزانہ ہونگے۔

(ii) دوسرا معاہدہ:

پہلے معاہدے کے بعد جولائی 2013میں دوسرا معاہدہ کیا گیا جوکہ یکم جولائی 2013سے 30مئی 2017تک فعال رہا۔ دوسرے معاہدے کی شرائط وہی تھیں جوکہ پہلے معاہدے کی تھیں، صرف بنیادی تنخواہ میں 2ہزار درہم اضافہ کیا گیا، جبکہ کل تنخواہ بمعہ الا ¶نسز 30ہزار درہم تک ہو گئی۔
(iii) تیسرا معاہدہ:
مدعا علیہ اور کمپنی کے درمیان تیسرا معاہدہ مئی 2017میں ہوا جوکہ مدعا علیہ کے خلاف درخواست دائر ہونے تک فعال تھا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تیسرا معاہدہ اس وقت ہوا جب مدعا علیہ وفاقی کابینہ میں وزیر دفاع کے عہدے پر فائز تھے ۔ یہ معاہدہ ملازمت 31مئی 2017سے فعال ہوا، ا س کی شرائط درج ذیل ہیں:
معاہدہ ملازمت کا فریق اوّل کمپنی ؛ فریق دوم خواجہ محمد آصف ولد خواجہ محمد صفدر ، قومیت پاکستانی، پاسپورٹ نمبر اے سی 1886006۔

معاہدے کا دیباچہ

فریق دوم فریق اوّل کیلئے ایمپلائمنٹ کنٹریکٹ نمبر (ایم پی 174652818اے ایف) کے تحت بطور مینجمنٹ کنسلٹنٹ کا م کرتا ہے ، معاہدے پرعملدرآمد
2جولائی 2011سے شروع ہوا۔ چونکہ دونوں فریق معاہدے جاری رکھنے کے خواہاں ہیں، دونوں نے درج ذیل امور پر اتفاق کیا ہے۔

پہلا آرٹیکل: فریق دوم بطور مینجمنٹ کنسلٹنٹ فریق اوّل کیلئے ابو ظہبی یو اے ای میں کام کرے گا۔

دوسرا آرٹیکل: فریق دوم ہفتے میں ایک روز چھٹی کرے گا۔ فریق اوّل چھٹی کے دن کا تعین کرے گا اور ملازمت کے معاہدے پر عمل کے آغاز پر ہی فریق دوم کو اس دن کے بارے میں مطلع کر دیگا۔

تیسرا آرٹیکل: کوئی فریق اگر معاہدہ ختم کرنا چاہے تو دوسرے فریق کو ایک ماہ قبل نوٹس دیگا۔

چوتھا آرٹیکل: دونوں فریق متفق ہیں کہ فریق دوم فریق اوّل کیلئے 50 ہزار ماہانہ درہم پر کام کرے گا، اس تنخواہ میں بنیادی تنخواہ 35 ہزار درہم اور الاؤنسز شامل ہونگے۔ ان الاؤنسز میں ہاؤسنگ الاؤنس اور ٹرانسپورٹ الاؤنس کی حد مقرر نہیں، دیگر الاؤنسز 15ہزار درہم ہونگے۔

پانچواں آرٹیکل: اس معاہدے کے تحت ملازمت کی نوعیت کنٹریکٹ ، باہمی رضامندی پر مبنی ہو گی۔ کوئی بھی فریق دوسرے کی رضامندی کے بغیر اس تعلق کو جاری رکھنے کا پابند نہیں ہو گا، اپنی مرضی سے معاہدہ منسوخ کرنیوالا فریق اسکے قانونی نتائج کا ذمہ دار ہوگا، جن کا متعلقہ شرائط میں ذکر اور جوکہ مقامی لیبر قوانین کے مطابق ہونگے۔

چھٹا آرٹیکل: فریق اوّل تسلیم کرتا ہے کہ اس نے فریق دوم کو آرٹیکلز سے مطلع کر دیا ہے۔

ساتواں آرٹیکل: فریق دوم تسلیم کرتا ہے کہ اس نے تمام آرٹیکلز کا بغور جائزہ لیا ہے۔

آٹھواں آرٹیکل : دونوں فریق تسلیم کرتے ہیں کہ آرٹیکلز کی شرائط جوکہ معاہدے کا لازمی حصہ ہیں، دونوں اس کے پابند ہونگے۔

نواں آرٹیکل: دونوں فریقین نے درج ذیل شرائط پر اتفاق کیا ہے ؛
فیملی اکاموڈیشن مہیا کی جائے گی۔

اضافی شرائط نافذ العمل قوانین، معاہدے کے آرٹیکلز کی خلاف ورزی نہیں ہونگے ۔ مزید شرائط کی صورت میں معاہدے نظر ثانی اور منظوری کیلئے متعلقہ لیبر ریلیشن اتھارٹی کو ریفر کیا جائے گا۔

دسواں آرٹیکل: اس معاہدے کی تین نقول ہونگی جس پر دونوں فریق دستخط کرینگے ۔ ایک ایک دونوں فریقین کے پاس جبکہ ایک نقل وزارت لیبر کے پاس رہے گی۔

4۔ ملازمت کے تینوں معاہدوں کی بنیاد پر مدعا علیہ کو “اقامہ ”یعنی ریذیڈنٹ ویزا جاری ہوا۔ مزید براں ، مدعا علیہ کو ایک ہنر مند ورکر کے طور پر رجسٹرڈ کیا گیا اور اس سلسلے میں وزارت لیبر یو اے ای نے ایک کارڈ بھی جاری کیاجس میں ورک پرمٹ نمبر 70798428 کا ذکر تھا۔ کمپنی کی جاری کردہ فہرست کے مطابق اس کے ملازمین کی کل تعداد 1250ہے ، مدعا علیہ کا ملازمت نمبر 303ہے ، اور ملازمت کی نوعیت “مینجمنٹ کنسلٹنٹ ” ہے ۔ فہرست میں 302اور 304نمبر کے ملازمین کنکریٹ میسن اور شاول آپریٹر ڈرائیور ہیں۔ کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر الیاس سالوم نے 12اپریل 2018کو ایک سرٹیفکیٹ جاری کیا جس کا عنوان To Whom it may Concern تھا، جو کہ مدعاعلیہ کی فاضل کونسل نے تحریری دلائل کیساتھ جمع کرایا ہے ۔اس سرٹیفکیٹ کے الفاظ درج ذیل ہیں۔

“میں تصدیق کرتا ہوں کہ خواجہ محمد آصف کمپنی کے “قانونی مشیر ”رہ چکے ہیں۔ ان کے ساتھ معاہدہ ایک قانونی دستاویز تھا جس کی منظوری یو اے ای حکومت نے دی۔ یہ معاہدہ یو اے ای کے قانون کے مطابق ہوا، تاہم معاہدے میں دی گئی شرائط دونوں پارٹیوں کے درمیان سمجھوتہ نہیں ،بلکہ دوستانہ اور باہمی رضامندی پر مبنی تعلق کا نتیجہ تھیں اور خواجہ آصف پر لازم نہیں تھا کہ وہ خاص وقت کیلئے یواے ای میں موجود رہیں۔ ہمیں جب بھی ضرورت پڑتی ، ٹیلی فون کے ذریعے یا پھر ان کے یواے ای کے دورے کے دوران مشورہ کر لیا کرتے تھے ۔ خواجہ آصف کی خدمات کی کمپنی انہیں معاہدے کے مطابق فیس ادا کرتی تھی۔ خواجہ آصف کبھی بھی کمپنی کے کل وقتی ملازم نہیں تھے ، اور جیسا کہ معاہدے میں ذکر ہے ، ا س کے برعکس انہیں یواے ای میں قیام کا کبھی نہیں کہا گیا۔ یواے ای میں اتنی لچک ہے کہ معاہدے کی تکمیل کیلئے کنسلٹنٹس اور ملازمین کیساتھ کمپنی مختلف شرائط پر اتفاق کر سکتی ہے اور یواے ای حکومت اس میں مداخلت نہیں کرتی۔ ان حقائق کی تصدیق کیلئے کمپنی کا نمائندہ پاکستان کی کسی بھی عدالت میں پیش ہونے کیلئے تیار ہے۔

آپ کا مخلص؛
انٹرنیشنل مکینیکل اینڈ الیکٹریکل کمپنی
الیاس سالوم
منیجنگ ڈائریکٹر ۔
ج) : اثاثے اور قرضے


کاغذات نامزدگی سے منسلک اثاثوں اور قرضوں کی سٹیٹمنٹ میں مدعا علیہ نے بینک اکاؤنٹ نمبر 6201853775 ڈکلیئر نہیں کیا جوکہ نیشنل بینک ابوظہبی کا ہے ۔ ریکارڈ میں پیش کی گئی دستاویزات میں کاغذات نامزدگی کی تاریخ سے ایک بیلنس رقم دکھائی گئی ہے ۔ اس اکا ¶نٹ کو مدعا علیہ نے پہلی مرتبہ 2015میں الیکشن کمیشن کو جمع کرائی گئی اثاثوں اور قرضوں کی سٹیٹمنٹ میں ڈکلیئر کیا جوکہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1976کی سیکشن 42اے کے تحت جمع کرائے گئے۔

5۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ درج بالا حقائق کا واضح طور پر اعتراف کیا گیا ہے ۔ کاغذات نامزدگی میں ملازمت کے تینوں معاہدوں کی تکمیل اور مذکورہ بالا بینک اکاؤنٹ ڈکلیئر نہ کرنے پر کسی قسم کا تنازع نہیں۔ درخواست گزار نے عوامی نمائندگی ایکٹ 1976کے سیکشن 52کے تحت مدعا علیہ کا انتخاب کو چیلنج کیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے عثمان ڈار بنام خواجہ آصف ” فیصلہ جاری کیا۔ درج بالا حقائق اس الیکشن پٹیشن کا حصہ نہیں تھے کیونکہ درخواست گزار کا اصرار تھا کہ وہ حقائق بعد میں اس کے علم میں آئے۔

6۔ ایڈووکیٹ سکندر بشیر مہمند نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مدعا علیہ قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ کی رکنیت کا اہل نہیں؛ مدعا علیہ نے اثاثوں اور قرضوں کی سٹیٹمنٹ میں دانستہ حقائق چھپائے ؛ انہوں نے تنخواہ سے حاصل ہونیوالی آمدنی چھپائی جوکہ 2011سے کمپنی انہیں ادا کر رہی تھی؛ ابوظہبی میں ریسٹورنٹ قائم کرنے کیلئے استعمال ہونیوالے سرمایہ کا ذریعہ بھی واضح طور پر ڈکلیئر نہیں کیا؛ تنخواہ کے اکاؤنٹ اور غیر ملکی ترسیلات میں تفریق بھی واضح طور پر ڈکلیئر نہیں کی؛ ملازمت کے تینوں معاہدے ڈکلیئر نہ کئے ؛ مدعا علیہ نے لاہور ہائیکورٹ کے فاضل الیکشن ٹربیونل میں عذر پیش کیا کہ بیرون ملک سے ترسیل رقم ریسٹورنٹ کی فروخت سے حاصل ہوئی تھی؛ فاضل الیکشن ٹربیونل کے 17اپریل 2013کے جاری حکم میں ریکارڈ غیر واضح بیان کو حتمی حیثیت مل گئی تھی، تب سے اسے درست کرنے کی کوئی کوشش نہ ہوئی؛مدعا علیہ نے اپنا پیشہ کاروبار ڈکلیئر کیا ہے ، موجودہ عدالتی کارروائی میں انہوں نے پہلی مرتبہ یہ عذر پیش کیا ہے کہ غیر ملکی ترسیل کا نامزدگی کے فارم میں ذکر ہے ، کا ذریعہ تنخواہ اور ریسٹورنٹ کا بزنس تھا؛ ابوظہبی کا بینک اکاؤنٹ ڈکلیئر نہ کرنا ہی آئین کے آرٹیکل 62(1)(ایف ) کے زمرے میں آتا ہے ؛ آرٹیکل 62 پر عمل درآمد کے حوالے سے سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں واضح نظیر طے کر چکی ہے ؛ مدعا علیہ ایک غیر ملکی کمپنی کے کل وقتی ملازم تھے ، جبکہ ملک میں دفاع اور خزانے کے وزارتیں ان کے پاس تھیں؛ یہاں مفادات کا ٹکراؤ بڑا واضح ہے ، یہی مدعا علیہ کو نااہل قرار دینے کیلئے کافی ہے ؛ مدعا علیہ نے بھول چوک کرکے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی، جوکہ انہوں نے بطور رکن قومی اسمبلی ، پھر بطور وفاقی وزیر اٹھایا۔

7۔ ایڈووکیٹ راشین نواز قصوری نے مدعاعلیہ کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے کہا؛ ایک کمپنی کیساتھ ملازمتوں کے تین معاہدوں کی تکمیل بہت سادہ نہیں ہے ؛ دونوں فریقین کی نیت معاہدوں میں درج الفاظ سے قطعی مختلف ہیں؛ کمپنی تصدیق کر چکی ہے کہ ملازمت کے معاہدوں میں استعمال ہونیوالے الفاظ قانونی تقاضے پورے کرنے کیلئے تھے ، وہ فریقین کی نیت ظاہر نہیں کرتے ؛ 12اپریل 2018کے سرٹیفکیٹ میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ ملازمت کے معاہدے محض یواے ای کے قوانین کے تقاضے پورے کرنے کیلئے تھے ؛12اپریل 2018کے کمپنی کے خط کو معاہدوں کیساتھ پڑھنے کی ضرور ت ہے ؛ ملازمت کے معاہدے درحقیقت کمپنی اور مدعا علیہ کے درمیان “اقامہ معاہدے ”ہیں؛ تینوں معاہدے ایک معیاری دستاویز ضرور ہیں مگر حقیقی تعلق کو ظاہر نہیں کرتے ؛ مدعا علیہ کی جانب سے سروسز کے معاملات زبانی طے پاتے ہیں؛

دونوں فریق شرائط طے کرنے میں آزاد ہیں؛ معاہدہ از سرنو لکھنا دونوں فریقین کے دائرہ اختیار میں ہے ؛ یہ ذمہ داری درخواست گزار کی ہے کہ وہ ثابت کریں کہ مدعا علیہ یو اے ای میں ڈیوٹی ادا کررہے تھے ، اور اسی صورت میں کیس ان کے حق میں جائیگا؛ درخواست گزار بھی اعتراف کرتے ہیں کہ مدعا علیہ بطور رکن پارلیمنٹ اور وفاقی کابینہ اپنے فرائض کی ادائیگی کیلئے ہر وقت موجود اور انہیں بخوبی سرانجام دیتے رہے ہیں ؛ کمپنی اور مدعا علیہ کے درمیان تعلق میں بہت زیادہ لچک تھی؛ درخواست گزار نے ایسا کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا کہ مدعا علیہ یو اے ای میں کل وقتی بنیاد پر کام کر رہے تھے ؛ پیشے سے متعلق مدعا علیہ کے اقرارنامے کا 1976کے ایکٹ سیکشن 12(2)(ایف)سے کوئی تعلق نہیں بنتا؛ نیشنل بینک ابوظہبی کے بند اکاؤنٹ کا ذکر نہ کرنے کی بھول کوئی اہمیت نہیں رکھتی، لازمی ذمہ داری کے معیار پر بھی نہیں اترتی ؛ اس سلسلے میں “رائے حسن نواز بنام حاجی محمد ایوب و دیگر ”(پی ایل ڈی 2017، سپریم کورٹ 70)کے حوالہ دیا جا رہا ہے ؛ درخواست گزار نے اقرار کیا کہ ابوظہبی کے اکا ¶نٹ اور اس میں جمع 4700درہم کا مدعا علیہ نے الیکشن کمیشن میں 30جون 2016کو جمع کرائی کی سالانہ سٹیٹمنٹ میں ذکر کیا ہے ؛ یہ اقرار اس درخواست کے دائر ہونے سے بہت پہلے کر دیا گیا تھا؛ نامزدگی کے فارم کے سیریل نمبر 8میں پیشے کے ذکر کو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا ،کیونکہ درخواست گزار نے خود مدعا علیہ کے پاسپورٹ کی کاپی اور یو اے ای کا جاری کردہ اقامہ ساتھ منسلک کیا تھا؛ مدعا علیہ نے درست اور حقائق پر مبنی ڈکلیئریشن جمع کرائے ؛ مدعاعلیہ کی بطور رکن پارلیمنٹ اہلیت کا معاملہ بطور منتخب امیدوار نوٹیفکیشن کے اجرا کے بعد آرٹیکل 63(2) کے تحت ہونا چاہیے ، جس کے تحت عدالت زیادہ سے زیادہ معاملہ سپیکر قومی اسمبلی کو بھیج سکتی ہے ؛ ایک بھول جوکہ پیشے کے اقرار سے متعلق ہے ، اتنی بڑی خرابی نہیں کہ نااہلی کی استدعا کی جائے ؛ ڈکلیئر نہ کرنے کے کیس میں سختی سے پاسداری کے سوال پر سپریم کورٹ میں شیخ رشید کے کیس میں دلائل پیش کئے گئے ، جس میں فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ؛ مناسب یہ ہو گا کہ اس میں سپریم کورٹ کے فیصلے اعلان تک اس کیس کو موخر کر دیا جائے ؛ مدعا علیہ کو رائے دہندگان نے بڑی تعداد میں ووٹ دے کر منتخب کیا تھا، ان کے حق رائے دہی کا احترام نہ کرنا غیر منصفانہ ہو گا؛ عام انتخابات سے 8ماہ قبل درخواست دائر کرنے سے درخواست گزار کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے ؛ سپریم کورٹ نے “عمران خان نیازی بنام میاں نواز شریف ”کیس میں سابق وزیراعظم کو صرف اقامہ کی بنیاد نااہل قرار نہیں دیا، بلکہ انہیں اثاثے ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے نااہل قرار دیا گیا؛ اقامہ کے ہونے کو آرٹیکل 62(1)(ایف)کے اطلاق کا جواز نہیں بنایا جا سکتا ۔
8۔ دونوں فریقین کے فاضل وکلا کو بغور سنا گیا، اور ان کی معاونت سے پیش کردہ ریکارڈ کا بغور جائزہ لیا گیا۔
9۔ درخواست گزار نے عدالت سے آرٹیکل199(بی )(1)(ii) کے تحت آئینی اختیارات استعمال کرنے کی استدعا کی ۔ درخواست گزار کے فاضل وکلا نے کئی اہم نکات اٹھائے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان معاملات کو نہ چھیڑا جائے جن سے حقائق سے متعلق متنازعہ سوالات اٹھتے ہیں۔ اسلئے ہم ان نکات پر فوکس کرینگے جوکہ حقائق پر مبنی ہیں جن کا مدعا علیہ کی جانب سے واضح طور پر اعتراف بھی کیا گیا ہے ۔ جن باتوں کا واضح اعتراف کیا گیا ؛
(i)کاغذات نامزدگی میں اقرارنامے ؛
(ii) ملازمت کے تین معاہدے ؛
(iii) تینوں معاہدے یو اے ای کے قوانین کے تقاضے پورے کرنے کیلئے تھے ، فریقین کبھی اس کی شرائط پر عمل درآمد کے خواہاں نہ تھے ؛ (iv) 17اپریل 2013کا لاہور ہائیکورٹ کے فاضل الیکشن ٹربیونل کا جاری کردہ حکم جس میں مدعا علیہ نے غیر ملکی ترسیلات کے ذرائع کا خاص عذر پیش کیا ، اور جیسے حتمی حیثیت ملی؛ (v) ابوظہبی کی نیشنل بینک برانچ کے اکا ¶نٹ کو ڈکلیئر نہ کرنا۔ یہ حقائق مدعا علیہ کے وکلا کی جانب سے واضح الفاظ میں زبانی ، تحریری طور پر تسلیم کئے گئے ، درخواست گزار کا اصرا ر بھی یہی ہے کہ مدعا علیہ نے کاغذات نامزدگی کے کالم نمبر 8میں دانستہ ڈکلیئر نہیں کیا کہ وہ ایک غیر ملکی کمپنی کے کل وقتی ملازم تھے ، کمپنی سے ملنے والی تنخواہ اور ابوظہبی میں بینک اکا ¶نٹس چھپایا۔
چونکہ آرٹیکل 63(2)(ایف)اور 1976 کے ایکٹ کی متعلقہ شقوں کا تعلق بنتا ہے ، اس لئے آئین اور ایکٹ کے متعلقہ شقوں کا جائزہ لیناضروری ہے ۔ اس سلسلے میں آرٹیکل 63(2)(ایف) کے اطلاق سے متعلق عدالتی فیصلے کا جائزہ بھی ناگزیر ہے ۔ درخواست گزار کے وکلا نے مفادات کے ٹکرا ¶ کا سوال بھی اٹھایا ہے ۔
10۔۔۔آئین کا باب نمبر 2پارلیمنٹ سے متعلقہ ہے ۔آرٹیکل 50کے مطابق مجلس شوریٰ(پارلیمنٹ) کے دو ایوان قومی اسمبلی اور سینیٹ ہونگے ۔آرٹیکل 51 کے مطابق قومی اسمبلی کی بشمول خواتین و غیر مسلموں کیلئے مختص نشستوں سمیت کل 342 نشستیں ہونگی جبکہ عام نشستوں کی تعداد 272 ہو گی ۔وہ شخص اس وقت تک الیکشن لڑنے اور پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اہل نہیں جب تک کہ وہ آرٹیکل 62 کی شرائط پر پورا نہ اترتا ہو جبکہ نااہلیت کا تعین آرٹیکل 63 میں کیا گیا ہے ۔آرٹیکل ون ایف کے مطابق وہ شخص منتخب ہونے یا پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اہل نہیں ہوگا جب تک کہ وہ صاد ق و امین نہ ہو اور اس کیخلاف عدالت کا کوئی فیصلہ نہ ہو ۔آرٹیکل 63 کی ذیلی شق 2 کے مطابق اگر سوالات جنم لیں کہ آیا مجلس شوریٰ کا رکن پارلیمنٹ کا رکن رہنے کا اہل نہیں رہا تب سپیکر یا چیئرمین اگر وہ یہ فیصلہ نہ کریں کہ ایسے سوالات نہیں اٹھتے ،وہ یہ معاملہ 30 دن کے اندر الیکشن کمیشن کو بھیج سکتے ہیں اور اگر وہ دیئے گئے وقت میں ایسا کرنے میں ناکام رہیں تب یہ سمجھاجاتا ہے کہ اس کا حوالہ دیا گیا ہے ۔
11۔۔۔۔۔1976 کا ایکٹ بنانے کا مقصد ابتدایئے میں دیا گیا ہے جس کے مطابق قومی اسمبلی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد کرانا ا ور ان کو کرپشن ، غیر قانونی جرائم و پریکٹسز سے محفوظ کرناہے ۔شق 2 میں کئی چیزوں کا اظہار کیا گیا ہے ۔شق 11اختیار دیتی ہے کہ صدر اس بات کا اعلان کرینگے کہ کس تاریخ کو کونسے انتخابات منعقد ہونگے ،یہ الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ حلقے کے نمائندے یا نمائندوں کو منتخب کرنے کیلئے اقدامات کرے ۔شق 12 کی ذیلی شق 2 کے تحت تمام کاغذات نامزدگی وضع شدہ فارم پر جمع کراناہونگے جس پر تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کے دستخط کرائے جائینگے اور اس پر امیدوار کی تصدیق اور دستخط ہونگے ،جس میں تعلیمی قابلیت ،پیشہ بارے تصدیق شدہ کاپیاں دی جائینگی ۔شق 99ون ایف کے مطابق وہ شخص الیکشن لڑنے یا پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اہل نہیں ہوگا جو صادق اور امین نہ ہو اور جس نے شق 12کی ذیلی شق 2 میں دیئے گئے قرضوں کی تفصیل کے مطابق قرضے ادا کرد یئے ہوں ۔
12۔۔۔۔۔۔مندرجہ بالا آئین کی شق اور 1976 کے ایکٹ سے یہ بات واضح ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف اور شق 99ون ایف الیکشن لڑنے اور پارلیمنٹ کا رکن بننے کی اہلیت کی بنیاد ہیں ۔ان شقوں میں دی گئی خوبیوں میں وسیع گنجائش ہے ۔ مذکورہ خوبیوں کی تشریح اور ان کو لاگو کیے جانے بارے اعلیٰ عدلیہ نے اب تک اپنے کئی فیصلوں میں اس کی جانچ کی ہے ۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اسحق خان خاکوانی و دیگر بنام میاں محمد نواز شریف و دیگر نے اپنے اختلافی نوٹ میں ان الفاظ میں اس کی وضاحت کی کہ "یہ بدقسمتی ہے کہ25 سال قبل ایک نوجوان وکیل کے طور پر کی گئی ڈراﺅنی تشریح ریٹرننگ افسر ،الیکشن ٹربیونل اور ملک کی اعلیٰ عدالتوں کو اذیت پہنچا رہی ہیں ۔ لیکن جو آئین کی ان تکلیف دہ شقوں کو مناسب ترامیم کے ذریعے بدلنے کے ذمہ دار تھے ،ایک طویل عرصے تک سوئے رہے اور وہ ابھی بھی جاگنے کے آثار نظر نہیں آرہے ۔ابہام اور غیر عملی کا ازالہ کرنے تک کسی کو بھی ریٹرننگ افسر،الیکشن ٹربیونلز اور اعلیٰ عدالتوں سے شکایت نہیں کرنی چاہیے جو عام طور پر آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت ان امیدواروں کو پکڑنے میں ناکام رہتے ہیں جوبرے کردار کے حامل ہوں ،خصوصاً جب عوام ایسے امیدواروں کو منتخب کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور ان کے کردار بارے جانتے ہوئے انہیں بھاری اکثریت سے نوازتے ہیں ۔
13۔۔سپریم کورٹ کے فیصلے بتاریخ 25.03.2015 کو سول اپیل نمبر 91/2015 عبدالوحید چودھری بنام رانا عبدالجبار وغیر ہ میں پیش کیا گیا نے اس اظہار کی تشریح کی ہے جو کہ 62 ون ایف میں استعمال کیا گیا ہے ، فاضل الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کی طرف بڑھنے سے قبل کہ درخواست گزار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کے آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کا اہل نہیں تھا ۔62ون ایف پر روشنی ڈالنا موزوں ہے جو کہ اس طرح ہے ۔
آرٹیکل 62۔1۔ ایک شخص منتخب ہونے ،پارلیمنٹ کا رکن بننے کیلئے اہل نہیں ہو گا
ایف ۔۔۔۔جب تک کہ وہ زیرک ،صادق اور امین نہ ہو ،اور اس کے خلاف عدالت سے فیصلہ نہ آیا ہو۔
آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کرتے ہوئے عدالت نے صادق ،امین اور سچا ہونے کی اپنے کئی فیصلوں میں تشریح کی ہے ۔مقصود احمد قریشی بنام پاکستان مقدمے میں یہ طے کیا گیا ہے کہ امین کا مطلب سچا،قابل اعتماد اور عاقل ہو گا ۔لہذا اس سے یہ اصول واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی شخص جس کا خدمات کیلئے تقرر کیاجانا مقصود ہو ،اس میں دو بنیادی خوبیا ں ہونی چاہئیں ۔ایک وہ جسمانی و ذہنی لحاظ سے صحت مند ہو اور دوسرا یہ کہ وہ سچا اور قابل اعتماد ہو ،بالکل اسی طرح مبشر حسین بنام وفاق پاکستان میں امین کی تعریف اسلامی انسائیکلو پیڈیا
دوسری جانب لفظRighteous کے بارے میں محمد یوسف بنام ایم ارشاد سپرا و دیگر(1988CLC2475 ) میں طے کیا گیا کہ چونکہ اس لفظ کی تشریح نہیں کی گئی اس لئے لغت میں اس لفظ کے جو معنی درج ہیں انہی کو کافی سمجھا جائے گا، لغت کے مطابق اس لفظRighteous کے معنی ہیں اخلاقی طور پر بالکل درست، انصاف پسند، نیک، اعلیٰ اقدار پر عمل کرنے اور قانون کی پابندی کرنے والا، آکسفورڈ انگلش ڈکشنری والیوم نمبر7 کے صفحہ نمبر677پر درج مفہوم کے مطابق اس کا مطلب ایک ایسا شخص ہے جو نیک عمل کرتا ہو، گناہوں سے محفوظ ہو، جوانصاف کرتا ہو اور اعلیٰ اقدار کی پاسداری کرتا ہو، اس شخص کا عمل اللہ کے عطا کردہ اخلاقی معیارات کے مطابق ہو۔
لفظ Honest کی تعریف چوہدری الطاف حسین بنام راجہ ایم افضل(PLD1986 Jaur 93 ) میں کی گئی ہے اس مقدمے کے فیصلے میں فاضل جج نے لکھا کہ لفظHonest کی وضاحت کیلیے میں ب سے پہلے لاطینی اصطلاحHONESTE کا ذکر کروں گا، اس کے معنی بلیکس لاءڈکشنری کے تیسرے ایڈیشن کے صفحہ نمبر902 پر دیے گئے ہیں، اس کے مطابق لفظHonest کا مطلب ہے ایک ایسا شخص جو باوقار ہو، قابل اعتبار ہو اور اعلیٰ انسانی اوصاف کا حامل بھی ہو، اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ایسا شخص کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا اور ہر ایک کو اس کا حق ضرور دیتا ہے ، علاوہ ازیں ویب سیٹرز کی تیسری نئی انٹرنیشنل ڈکشنری جلد نمبر ایک کے 1971ءکے ایڈیشن میں صفحہ نمبر1086 پرHonest کا مفہوم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایسا شخص جو کبھی دھوکا دہی یا بد دیاتی میں ملوث نہ ہوا ہو، سچ بولتا ہو، کبھی کوئی ناجائز کام نہ کرتا ہو اور جو اچھی شہرت کا مالک ہو، معاشرے میں اسے ان اوصاف کی بدولت قابل تعظیم سمجھا جاتا ہو، ایسا شخص ہمیشہ حق کی بات کرتا ہو اور اپنی ان خوبیوں اور اصولوں کی پاسداری اور نیک عمل کی بنا پر اسے معاشرے میں قابل اعتبار سمجھاجاتا ہو۔
14۔ اس مقدمے میں سپریم کورٹ نے ایک کامیاب امیدوار کو اس بناءپر نااہل قرار دیا تھا کہ اس نے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ متعارف کئے جانے سے قبل اپنے 2 شناختی کارڈز بنوائے ہوئے تھے ۔ رائے حسن نواز بنام حاجی محمد ایوب و دیگر(PLD 2017 S.C 70 ) کے مطابق عدالت نے 1976 کے متعلقہ ایکٹ کا بغور جائزہ لینے کے بعد قرار دیا تھا کہ امیدواروں سے بیان حاصل کرنے کے اہم مقاصد میں عوام الناس کے حقوق کا تحفظ بھی ہے ، علاوہ ازیں اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ الیکشن لڑنے والے امیدوار قابل اعتبار ہوں اس قبل محمد یوسف کا سیلیا بنام پیر غلام(PLD-2016-SC689) میں قرار دیا گیا کہ یہی وجہ ہے کہ کئی حالیہ فیصلوں میں عدالت نے امیدواروں کی جانب سے اپنی جائیداد اور مالی وسائل سے متعلق غلط بیانی کو سنگین معاملہ قرار دیتے ہوئے ایسے شخص کو الیکشن میں حصہ لینے کیلئے نااہل قرار دے دیا تھا۔ اسی طرح ایک اور مقدمے محمد احمد چٹھ بنام افتخار احمد چیمہ (2016 SCMR 763 ) جب ایک کامیاب امیدوار اپنا ایک ایسا بینک اکاﺅنٹ ظاہر نہیں کیا تھا جس میں کافی عرصے سے کوئی لین دین نہیں ہوا تھا تو اس امیدوار کے انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ اسی طرح شامنہ بادشاہ قیصرانی بنام محمد داﺅد (2016 SMR 1420 ) میں ایک کامیاب خاتون امیدوار کے انتخاب کو اس وجہ سے کالعدم قرار دیا گیا تھا کہ ان کے بیان کے مطابق انہوں نے اپنی زرعی جائیداد اپنے بھائیوں کے نام منتقل کردی تھی لیکن اس انتقال اراضی کی کوئی دستاویز نہیں بنوائی گئی تھی۔
15) لہٰذا اوپر درج دونوں مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئین نے کسی بھی شخص کے مجلس شوریٰ کی( پارلیمنٹ) کارکن بننے کیلئے بعض شرائط مقرر کی ہوئی ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی حلقے کے عوام جب کسی بھی شخص کو اپنا نمائندہ منتخب کر کے اس پر اظہار اعتماد کریں اور اس بناءپر اس شخص کو ایک مقام اور مرتبہ حاصل ہو جائے تو اسے ایک باوقار ، دیانتدار ار قابل اعتماد شخصیت ہونا چاہئے ، خود مجلس شوریٰ( پارلیمنٹ) نے جب آئین میں18ویں ترمیم کی تو آرٹیکل62 (1) (f) پر تفصیلی غور اور مباحثے کے باوجود اسے برقرار رکھا۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مجلس شوریٰ( پارلیمنٹ) نے خود پارلیمنٹ کا رکن بننے والوں کیلئے اہلیت کا ایک اعلیٰ معیار مقرر کردیاہے ۔
فاضل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے عمران احمد خان نیازی بنام میاں محمد نواز شریف و دیگر 9افراد کیخلاف مقدمے (PLD 2017 sc 265 ) میں قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل62 (1) (F) میں استعمال کئے گئے لفظHonest کا مطلب محض رسمی اخلاق نہیں بلکہ وسیع معنوں میں کسی شخص کا کردار ہے جس میں قانونی مفہوم میں دیانت بھی شامل ہے یقیناً اس فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل کے تحت کسی بھی شخص کو اس وقت تک نااہل قرار نہیں دیا جائے گا جب تک کہ اس کے خلاف اس قانون کی خلاف ورزی ثابت نہ ہو جائے ۔
16۔ اب اہم معاملہ یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62(1)(F) اور سیکشن 99(1)(F) کے تحت کسی بھی امیدوار کی جانب سے کاغذات نامزدگی میں غلطی یا بعض حقائق کو ظاہر نہ کرنے پر اس کیخلاف کارروائی کی کیا بنیاد ہو؟ اس کا مختصر اور جامع جواب یہی ہو سکتا ہے کہ حقائق کو ظاہر کرنا ہر امیدوار کی کلی ذمے داری ہے خواہ یہ غفلت کے باعث ہوئی ہو یا دانستہ کی گئی ہو ، یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی کامیاب امیدوار تمام حقائق کو ظاہر نہیں کرتا تو1976 کے ایکٹ کے تحت کیا اسے کیا اسے صادق، امین، دیانتدار اور قابل اعتبار ہونے کے اعزاز سے محروم کیا جا سکتا ہے ؟
سپریم کورٹ نے رائے حق نواز وغیرہ بنام حاجی محمد ایوب وغیرہ کے مقدمے کے فیصلے میں کہا کہ عدالت سمجھتی ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے کسی بھی امیدوار کی جانب سے اپنے اثاثوں اور واجبات سے متعلق بیان کی نوعیت کیا ہے ؟ یہ ارادی ہے یا غیر ارادی اور اس کے عوض امیدوار کو کیا فوائد اور سہولتیں حاصل ہوئی ہیں؟
17۔ تاہم سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلوں میں بہت واضح طور پر ان معیارات کا ذکر کر دیا ہے جن کی بنیاد پر غلط بیانی کرنے والے کسی امیدوار کو نااہل قرار دینے یا ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے ،اس سلسلے میں عمران احمد خان نیازی بنام میاں محمد نواز شریف و دیگر(PLD-2017-SC692 ) میاں محمد نواز شریف وغیرہ بنام عمران خان نیازی(PLD 2018 SC-1 ) محمد حنیف عباسی بنام جہانگیر خان ترینPLD 218 SC 189 اور عدالت عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ جو13 اپریل2018 کو سنایا گیا بہت اہمیت کا حامل ہے ، یہ سول اپیل نمبر233 میں اٹھایا گیا تھا ،یہ اپیل سمیع اللہ بلوچ نے عبدالکریم نوشیروانی کیخلاف2015 میں دائر کی تھی۔
18۔ ایک حالیہ مقدمے میاں محمد نواز شریف بنام عمران احمد خان نیازی(PLD 2018 SC 1 ) میں فاضل عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ
استدلال یہ ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ جو تنخواہ وصول نہیں کی گئی وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک اثاثہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو تنخواہ وصول نہیں ہوئی اسے بطور اثاثہ ظاہر نہ کرنا عوامی نمائندگی کے ایکٹ کی دفعات 12 اور 13 کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اس کی بناءپر متعلقہ امیدوار کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے جا سکتے ہیں اور ایسے شخص کو منتخب عہدے سے برطرف کیا جا سکتا ہے ، تاہم یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایسے امیدوار کیخلاف کارروائی آئین کی متعلقہ دفعات سیکشن ROPA 92(1)(F) کے سیکشن 99(1)(f) اور آئین کے آرٹیکل62(1)(F) کے تحت نہیں ہوگی، حالانکہ ان لوگوں نے اپنے کاغذات نامزدگی کے ساتھ حلف نامہ بھی دیا تھا لہٰذا ان افراد کیخلاف کارروائی ضروری ہو گئی ہے کیونکہ اگر اس مرحلے پر قصور وار امیدواروں کیخلاف کارروائی نہ کی گئی تو اس کے ملکی سیاست پر تباہ کن اثرات ہونگے ۔چونکہ آئین وقانون کی یہ خلاف ورزیاں بڑے پیمانے پر کی جارہی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ اس کے ذمے دار کرپٹ عناصر کیخلاف سخت ترین کارروائی کی جائے کیونکہ ایسے لوگوں کو سزا نہ دینے کامطلب پورے نظام اورمعاشرے کو برباد کرنا ہوگا،اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ معاشرے میں بدعنوانیاں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں، ان کی روک تھام کیلئے بھی انتہائی اقدامات ضروری ہوچکے ہیں،قصوروار امیدواروں کے ساتھ رعایت کرنے کی روایت معاشرے کی اصلاح کیلئے بے سود ثابت ہوچکی ہے ، اس کے برعکس اس “کلچر ” کی وجہ سے عوام اور سسٹم دونوں بری طرح کرپشن کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک دلیل یہ بھی دی گئی تھی کہ اپنے اثاثوں کوظاہر نہ کرنا انسانی غلطی بھی ہوسکتی ہے ۔لیکن زیرنظرمقدمے کے حوالے سے یہ دلیل قطعی ناقابل قبول ہے ، اس لئے کہ متعلقہ امیدوار سیاست اور تجارت دونوں شعبوں میں تووارد نہیں ہے ۔جو شخص 1980ءکی دہائی سے کاروبار اور سیاست دانوں میں پوری طرح شریک رہاہو اور جس کے بارے میں یہ کہنا برمحل ہو کہ وہ کئی برس سے گردن تک سیاست اور تجارت میں ڈوبا ہوا ہے اس کے بارے میں یہ قیاس بھی نہیں کیاجاسکتا کہ وہ اتنی سی بات نہیں جانتا کہ اس نے ساڑھے چھ برس کی جو تنخواہ وصول نہیں کی وہ اکاﺅنٹنگ اورکاروبار کے تسلیم شدہ قواعد اوراصولوں کے تحت قابل وصولی رقم اور اس کا اثاثہ ہے ، اور جس کمیٹی کا وہ ملازم ہے اس کیلئے قابل ادائیگی رقم اور واجبات ہیں۔
19۔عدالت عظمیٰ نے محمد حنیف عباسی بنام عمران خان نیازی ،مقدمہ نمبرSC189 PLD 2018میں اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ “اس معاملے میں عدالت ایک ایسے اثاثے کے معاملے کودیکھ رہی ہے جسے ظاہر نہیں کیا گیا جبکہ اس کی موجودگی سے انکار بھی نہیں کیاجارہا ہے ، جس کمپنی سے تنخواہ وصول کرنی ہے اس کے مالی معاملات پہلے ہی مشکوک ہیں اور ان کا تعلق ایک ایسے نیٹ ورک سے ہے جو کثیر اثاثوں کے مالک افراد پر مشتمل ہے ۔
مذکورہ بالا پیرا میں عدالت ایک غیر ظاہر شدہ اثاثے کا حوالہ دے رہی ہے جس کے وجود کا اعتراف ایک ایسی مالیاتی اکائی کر رہی ہے جس کے بارے میں پہلے ہی شکوک پائے جاتے رہے ہیں۔ یہ مالیاتی اکائی ایسے اشخاص اور اداروں کے نیٹ ورک کا حصہ تھی جس کے غیر متناسب اثاثوں کو سابق وزیر اعظم، ان کے بینیفشریز اور نے نام داروں سے وابستہ قرار دیا جاتا رہا ہے ۔ایسے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مذکورہ فیصلے میں مبینہ منصوبے ، ارادے ، تناظر یا امپروپرائٹی کے بغیر ہی عدم دیانت قرار دی گئی ہے ۔ جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں، بینچ کے ارکان نے آئین کے آرٹیکل 61(1) کے مطابق نا اہلی قائم کرنے کے لیے قانون ساز ایوان کے متعلقہ رکن کے حوالے سے عدم دیانت کی شرائط کو نظر انداز نہیں کیا۔ اس حوالے سے ROPA کے سیکشن 99(f) کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ آئین کے ہر لفظ کا واضح مفہوم اور تاثر ہے جس پر غور کرنا لازم ہے ۔ کسی بھی لفظ کے مفہوم کے حوالے سے کسی بھی غلطی کو آئین کے کھاتے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ اسی عدالت کے دیگر فیصلوں میں بھی دیانت دار اور امین ہونے کے حوالے سے آئین کے متعلقہ آرٹیکل کے الفاظ اور ان کے مفاہیم کی روح کو مکمل طور پر ذہن نشین رکھا گیا ہے ۔
درخواست دہندہ کے وکیل کا موقف یہ تھا کہ انتخابی امیدوار بننے کے حوالے سے اعلامیے میں کسی بھی اثاثے کا ذکر نہ کیا جانا یا کوئی غلطی کر جانا قانونی اعتبار سے وسیع تر مفہوم رکھتا ہے کیونکہ اس سے بدعنوانی یا بے قاعدگی، منی لانڈرنگ، اختیارات سے بڑھ کر اثاثے بنانے اور ایسے ہی دیگر امور کا تاثر بھی ابھرتا ہے ۔ زیر نظر کیس میں کسی بھی سرکاری عہدے سے فائدہ اٹھانے اور اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے بدعنوانی کے ارتکاب یا سرکاری فرائض کے ادا کرنے میں غفلت کے ارتکاب کا کوئی معاملہ نہیں اس لیے درخواست دہندہ کے فاضل وکیل کی دلیل بے محل اور ناکام ٹھہرتی ہے ۔
شیخ محمد اکرم بنام عبدالغفور کیس 2016 SCMR 733)) میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ امیدوار جس کا استحقاق نہیں رکھتا تھا وہ فائدہ اسے پہنچانے کے لیے کوئی نہ کوئی غلط معاملہ ضرور وقوع پذیر ہوا ہوگا یا پھر کچھ نہ کچھ چھپایا گیا ہوگا۔ مذکورہ بالا اصولوں اور قانون کی روشنی میں ٹیسٹ کو دو درجات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ اول یہ کہ کوئی پہلی بار الیکشن لڑ رہا ہے اور متعلقہ امور کے بارے میں سب کچھ نہیں جانتا اور دوسرے یہ کہ جو لوگ پہلے الیکشن لڑچکے ہیں وہ چونکہ سب کچھ جانتے ہیں اس لیے انہیں “بھولپن” کی رعایت نہیں دی جاسکتی۔ سپریم کورٹ نے فرق نمایاں کرنے کی غرض سے یہ نکتہ بیان کیا تھا۔ موخر الذکر معاملے میں اسٹینڈرڈ یا بار خصوصی (فینومینل) حیثیت رکھتا ہے ۔ بہر کیف، عدم دیانت پہلے سے طے شدہ نکتہ نہیں۔ مالیاتی اثاثوں سے متعلق ادھوری یا غلط معلومات فراہم کرنا یا کوئی بات چھپانا کسی نہ کسی فائدے کے حصول کے لیے سوچی سمجھی اسکیم کے تحت اور ادارے کے تحت ہوتا ہے ۔ یوں یہ سخت تر مفہوم میں ذمہ داری کا ٹیسٹ نہیں کیونکہ ارادے یا نیت کا عنصر پہلے سے طے شدہ نہیں۔ اگر اثاثوں کے بارے میں سب کچھ کھل کر بیان کردیا جائے اور کچھ بھی غیر بیان شدہ نہ رہنے دیا جائے تو آئین کے آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت قرار پانے والی کسی بھی شرارت کا غلط بیانی کا شائبہ تک نہیں ابھرتا۔ اسی طور اگر کوئی امیدوار اپنے گوشوارے میں کوئی بات بیان کرنا بھول گیا ہے مگر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا محض غلطی سے ہوا اور کوئی غلط ارادہ نہیں تھا تو وہ قابل احتساب نہیں ٹھہرتا۔ آئین کے متعلقہ آرٹیکل کے تحت کی جانے والی جانچ پڑتال اخلاقی یا موضوعی بنیاد پر نہیں کی جاتی۔ یہ شرط اس بات کا پابند نہیں تو کرتی کہ کوئی ہر اعتبار سے جامع ہو تاہم یہ لازم ہے کہ وہ ایماندار، صاف گو اور قابل اعتبار ہو۔ مذکورہ بالا فیصلوں میں جس ٹیسٹ کا ذکر کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے ، اس سے کہیں بھی کبھی بھی خطا سرزد ہوسکتی ہے ۔ 1976 کے ایکٹ کے سیکشن 12 کے تحت معلومات کا عوام پر ظاہر کیا جانا دراصل اس مقصد کے تحت ہے کہ انتخابات سے متعلق تمام معاملات شفاف ہوں۔ کسی بھی جمہوری سیٹ اپ میں سب سے بڑے اور اہم ترین اسٹیک ہولڈرز حلقے کے لوگ (ووٹرز) ہیں۔ ووٹر کو چونکہ امیدواروں میں سے اپنے لیے بہترین نمائندہ منتخب کرنا ہوتا ہے اس لیے لازم ہے کہ تمام امیدواروں کی جانب سے بیان کی جانے والی باتیں درست ہوں اور بالخصوص چیلنج کی جانے والی باتوں کی بھرپور طریقے سے وضاحت کی گئی ہو۔
اب ہم اس مقدمہ کے سلسلہ میں ان حقائق اور واقعات کا حوالہ دیں گے تاکہ جائزہ لیا جاسکے کہ کیا مدعا علیہ مذکورہ بالا اصولوں اور قانون کی روشنی میں آئین کے آر ٹیکل 62(ون )(ایف) کے تحت اہل ہے -مدعا علیہ کو یہ استحقاق حاصل تھا کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 110 سے ، 1993، 1997، 2002، اور 2008، اور آخر میں 2013 کے عام انتخابات میں اس نے انتخابی گوشوارے داخل کئے -ان انتخابی گوشواروں میں مدعا علیہ نے تعلیمی اہلیت کے کالم میں یہ ڈکلیئر کیا کہ وہ لا گریجویٹ ہے -یقیناً مدعا علیہ ایک تجربہ کار سیاستدان ہے اور اسے کسی بھی طرح سیاست کے میدان میں اناڑی نہیں سمجھا جاسکتا - لا گریجویٹ ہونے کی وجہ سے مدعا علیہ گوشوار ہ میں غلط بیانی کرنے کے مضمرات اچھی طرح سمجھتا ہے -مدعاعلیہ نے جب 30 مارچ 2013 کو کاغذات نامزدگی دستخط کرکے جمع کرائے تھے تو اس وقت اس نے ایک دوسرے ملک کے قاعدہ قانون کے مطابق چلنے والی کمپنی سے تنخواہ یا ماہانہ اجرت لینے کا پہلا کنٹریکٹ کیا تھا -پہلا کنٹریکٹ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے منظور کیا تھا اور بعد میں کمپنی نے اپنے مینیجنگ ڈائرکٹر کے دستخط سے جاری ہونے والے ایک سرٹیفیکیٹ میں اس امر کی توثیق کردی تھی-پہلے کنٹریکٹ کی متعلقہ شق کا اوپر حوالہ دیا جاچکا ہے -روزگار کے معاہدہ کے تحت متحدہ عرب امارات کے وفاقی لیبر لا نمبر 8 مجریہ 1980 کے تحت آرٹیکل 120 کے تحت کوئی بھی ملازم اس اسٹیبلشمنٹ کا کوئی راز افشا نہیں کرے گا جس میں وہ کام کررہا ہے -مسلسل 20 دن سے زیادہ یا 7ایک سال کے دوران یا مسلسل 7 دن سے زیادہ کسی جائز جواز کے بغیر ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنے والے ملازم کی نوکری ختم کی جاسکتی ہے -پہلے کنٹریکٹ میں جو زبان اور اصطلاحیں استعمال کی گئی ہے اس سے قطعی طور پر یہ واضح ہوتا ہے کہ روزگار کل وقتی بنیادوںپر فراہم کیا گیا - مدعا علیہ اور کمپنی کے درمیان نتعلقات ، پہلے لنٹریکٹ میں استعمال کی جانے والی اصطلاحوں کی روشنی میں اجر اور اجیر کے تعلقات تھے -اس کی مزید تصدیق ملازمین کی اس فہرست سے بھی ہوتی ہے جس میں مدعا علیہ کا نام 303 ویں نمبر پر درج تھا-فرسٹ کنٹریکٹ کی بنیاد پر مدعا علیہ کا نام درج کرکے اسے ایک شناختی کارڈ جاری کیا گیا تھا- یہ کارڈ متحدہ عرب امارات کی وزارت محنت نے لیبر کیٹیگری میں جاری کیا تھا-اس حیثیت میں مدعا علیہ کو رہائشی ویزا مل گیا تھا اور اس کے حق میں ایک اقامہ بھی جاری کردیا گیا-مدعا علیہ نے جب کاغذات نامزدگی جمع کرائے تو وہ ایک بیرون ملک کمپنی کے باقاعدہ ملازم تھے -اور وہ باقاعدہ کمپنی سے تنخواہ لے رہے تھے -چونکہ بیرون ملک ملازمت کا انکشاف کرنے سے ان کے حلقہ انتخاب کے ووٹروں کے ذہن میں انکے مفادات، بیرون ملک نوکری اور نوکری کی شرائط و ضوابط کے بارے میں کے بارے میں سنگین سوالات جنم لیتے ، اس لئے مدعا علیہ نے کاغذات نامزدگی کے کالم نمبر 8 میں اپنا پیشہ محض بزنس ظاہر کیا -اثاثو ں اورواجبات کے سلسلہ میں داخل کردہ بیان میں بیرون ملک سے حاصل ہونے والی آمدنی 6820 ملین روپئے ظاہر کی گئی- اس مبہم بیان کو دیگر امیدواروں کی طرف سے ریٹرننگ آفیسر کے سامنے چیلنج کیا گیا -جس کے نتیجہ میں لاہور ہائی کورٹ کے فاضل الیکشن ٹریبیونل کے سامنے اپیل کی گئی-گراونڈز آفمیمو آف پٹیشن ان الیکشن اپیل نمر 144-اے 2013 کے پیرا گراف سی میں واضح طور پر یہ اعتراض کیا گیا کہ جوابدہ نمر 2 نے جوابدہ نمر ایک یا ریٹرننگ آفیسر کے سامنے گمراہ کن مالی حقائق پیش کئے ہیں کیونکہ گزشتہ تین سال کے دوراںغیر ملکی ریمیٹینس سے خطیر پیمانہ پر آمدنی ہوئی لیکن ذریعہ آمدنی یا بھیجنے والے کا نام یا ملک کا پتہ نہیں چلا-اس سلسلہ میں مدعا علیہ کا جواب یا موقف ریٹرننگ آفیسر نے سنا اور 17 اپریل 2014 کو ریکاردکیا گیا جو کچھ اس طرح ہے کہ مزید یہ بتاایا گیا کہ تمام ریمیٹینس جو جوابدہ نمبر 2 کو بینک کے ذریعہ وصول ہوئے وہ اس بزنس سے حاصل ہوئے تھے جو جوابدہ نمر2ریستوران چلاکر حاصل کررہا تھا جس کی پوری وضاحت کردی گئی۔
مدعا علیہ کے فاضل وکیل کوئی ایک بھی ایسی دستاویز پیش نہیں کرسکے جس سے یہ بات مترشح ہوتی ہو کہ فرسٹ کنٹریکٹ والے آجر سے اجرت یا تنخواہ کی مد میں حاصل ہونے والی رقم کا گوشواروں میں کہیں ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ بات بھی تسلیم کی گئی ہے کہ بیرون ملک سے آنے والی رقم کے حوالے سے پائے جانے والے ابہام کو دور کرنے اور معاملات کو درست کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ کے ٹربیونل کے 17 اپریل 2013 کے آرڈر میں درج ہے ۔ Occupation دراصل درجہ بندی کے لیے استعمال کی جانے والی اصطلاح ہے جس میں کاروبار، ملازمت اور پیشہ تینوں میں شامل ہیں۔ پہلا کنٹریکٹ ملازمت کا کنٹریکٹ تھا جس میں مدعا علیہ ملازم کی حیثیت سے مذکور ہے ۔ پاکستان کے وزیر خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد بھی مدعا علیہ کی یہ ملازم والی حیثیت برقرار رہی۔ یہ بات اب اظہر من الشمس ہے کہ مدعا علیہ نے اپنی ملازم کی حیثیت اور تنخواہ کی وصولی کا معاملہ واضح طور پر بیان نہیں کیا جبکہ مخالف امیدواروں کی جانب سے اس پورے معاملے کو چیلنج بھی کیا گیا۔ تیسرے کنٹریکٹ کے تحت اقامے کے تحت ملازم کی حیثیت برقرار رکھی گئی اور باضابطہ موجودگی یقینی بنائے بغیر ماہانہ 50 ہزار درہم تنخواہ وصول کی جاتی رہی۔ یہ معاملہ طشت از بام کیے جانے کی صورت میں مدعا علیہ یعنی وزیر خارجہ کو اقامے سے دست بردار ہونا پڑتا اور تنخواہ کی وصولی بھی ترک کرنا پڑتی۔ ہم نے بہت غور و خوض کیا مگر اپنے آپ کو اس امر پر قائل نہ کرسکے کہ اقامہ اور تنخواہ کی وصولی کے حوالے سے معلومات کا بیان نہ کیا جانا محض بھول چوک تھا یا سادگی پر مبنی تھا۔ بیرون ملک سے موصول ہونے والی رقم کے مشکوک ہونے پر چیلنج کیے جانے کے بعد بھی بیرونی ملازمت اور تنخواہ کی وصولی کے معاملے کو واضح طور پر بیان کرنے اور ابہام دور کرنے سے گریز کیا گیا۔ بینک آف ابو ظہبی میں اکا ¶نٹ کی موجودگی کا بیان نہ کرنا بھی اسی ذیل میں ہے ۔
نمبر : 23
فیصلہ میں کہاگیا کہ متاثرہ فریق (جواب دہندہ) نے عدالت کے سامنے یہ موقف اختیار کیا کہ ملازمت کے معاہدہ کو صرف متحدہ عرب امارات کی حکومت کے قوانین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بنایا گیا ، اس حوالے سے ایک سرٹیفکیٹ جو 12اپریل 2018کو کمپنی کے ایم ڈی کی طرف سے جاری کیا گیا اس کو بھی ریکارڈ میں شامل کیا گیا ، اس معاہدہ کے تمام مندرجات کو ازسرنو تحریر کیا گیا ہے ، جوابدہندہ کے اس جواب نے خود اس معاملہ کو مزید الجھا دیا ہے ان کے اس اعتراف نے ا س امر کی تصدیق کر دی ہے کہ جوابدہندہ نے ایک جعلی معاہدہ کر کے غیر ملکی حکومت کو دھوکہ دیا ہے فیصلے میں بلیک لا ڈکشنری میں جعلی معاہدے کی تعریف بھی شامل کی گئی ہے ۔بلیک لا ڈکشنری میں بیان کی گئی جعلی معاہدے کی تعریف اور کمپنی کے جواب سے یہ بات کھل کر سامنے آ ئی ہے کہ یہ ملازمت کے معاہدے غیر ملکی حکومت کی قانونی ضروریات کوپورا کرنے کیلئے کئے گئے ملازمت کے تین معاہدے کئے گئے اور یہ جانتے ہوئے بھی یہ معاہدے کئے گئے کہ یہ جعلی معاہدے ہیں اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان معاہدوں کا ارتکاب اس فرد نے کیا ہے جو کئی بار منتخب ہو چکا ہے اور اس وقت ملک کے وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز ہیں اوراس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انہوں نے ان کمپنیوں سے تکواہ اور مراعات ترسیلات زر کی صورت میں پاکستان منگوائی ہیں اور 1976کے ایکٹ کے تحت اس اقدام کو جوابدہندہ جیسا فرد ایک معمولی بات قرار دے رہا ہے ہمارے نزدیک ایک معمولی بات نہیں ہے جوابدہندہ نے جان بوجھ پر یہ اہم معلومات انتخابات کے موقع پر کاغذات نامزدگی داخل کروانے سے قبل چھپائی ہیں جو اس ایکٹ کے تحت انتہائی قابل گرفت ہے اس کیس میں جوابدہندہ نے پہلے ایک ملازمت اور بعد میں مزید ملازمت کے معاہدوں کا اعتراف کیا ہے 12اپریل2018کے سرٹیفکیٹ کے ذریعے اس امر کی مبہم سی تصدیق کی گئی کہ ان معاہدوں کی متحدہ عرب امارات کی حکومت نے بھی تصدیق کر دی ہے جوابدہندہ نے منتخب ہونے کے بعد اور تین مختلف وزارتوں پر فرائض کی انجام دہی کے دوران ان ملازمت کے معاہدوں میں ترمیم کیوں نہیں کروائی اس سے یہ مفادات کا ٹکراﺅ ظاہر کرتا ہے ملازمت کے معاہدوں کو چھپانے ان کی ملازمت کے معاہدے چیلنج ہونے کے بعد پھر انہیں ملازمت کے معاہدوں سے بیرونی آمدن کو انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کرنے سے آئین کے آرٹیکل62 ایک کی خلاف ورزی ہے جوابدہندہ کے وکیل کے موقف میں کوئی وزن نہیں کہ ان کے اقامہ کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر کر دیا گیا تھا ۔جوابدہندہ کے وکیل کے اس جواب پر کہ یہ معاہدے قانونی ضرورت پوری کرنے کیلئے کئے گئے اور ان کو ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی ایک انوکھا موقف ہے کیونکہ ان کے بیان کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ان کی ملازمت کے یہ معاہدے جعلی تھے فریقین کے درمیان ہونے والے اس معاہدے میں تحریر کی گئیں شرائط کو انہیں بنیادوں پر سمجھا جاسکتا ہے جو اس میں تحریرہیں اور بعد میں یہ موقف اختیار کرنا غلط ہوگا کہ ان معاہدوں کی شرائط عمل درآمد کیلئے تحریر میں نہیں لائی گئیں تھیں ۔جوابدہندہ کے وکیل نے اپنے موقع میں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ جوابدہندہ نے 9000 درہم تنخواہ میں وصول کئے اور انہیں اپنے انکم ٹیکس گوشوارے میں بھی ظاہر کیا جو مالی سال2011-12کیلئے ویلتھ سٹیٹمنٹ کی ضمن میں گوشوارے کے ہمراہ لف کی گئی اور اسی تنخواہ کو تحریری طور پر بتایا گیا ہے کہ آج تک وصول نہیں کی گئی اور ان کی وصولی کی جگہ0درج ہے اسی مالی سال میں غیر ملکی آمدن کی مد میں حصص اور سرمایہ کاری کے منافع سے 50فیصد سے شرح سے جو ظاہر کی گئی اس کی مالیت2کروڑ17لاکھ روپے بنتی ہے اور گزشتہ سال جو گوشوارہ داخل کروایا گیا اس میں مندرج غیر ملکی آمدن کی تفصیلات اس سے ملتی نہیں ہیں اور انتخابی گوشوارے میں جو رقم68لاکھ24ہزار ظاہر کی گئی اس میں تنخواہ کے 9ہزار درہم کی رقم شامل نہیں تھی ٹیکس میں چھوٹ کو آئینی ذمہ داری سے بری الزمہ ہونے کیلئے استعمال میں نہیں لایا جاسکتا ہے جوابدہندہ کے انکم ٹیکس گوشوارے میں ریذیڈنٹ پاکستانی کی پاکستان میں 180دن کی اقامت کی شرط پوری نہیں کی گئی یہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعہ 102کی بھی خلاف ورزی قرار پائی ہے اور اسی کی بنیاد پر کاغذات نامزدگی میں ملازمت کے ان معاہدوں کی تفصیلات کی فراہمی ظاہر کرتی ہے عدالت نے اپنے فیصلے میں وزیر اعطم نواز شریف کی نا اہلیت کے بارے میں دائر کی گئی درخواست میں یہ بات ثابت کی ہے کہ اگر کاغذات نامزدگی، الیکشن ٹربیونل ، میں اگر کسی امیدوار کی اہلیت کے معیار کو فراموش کیا گیا یا بوجہ یہ معلومات سامنے نہ آسکیں تو بعد ازاں بھی انہیں کی بنیادوں پر ان کی نا اہلی کی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے اگر کاغذات نامزدگی کی قبولیت کے بعد بھی یہ بات سامنے آئی کہ ان میں اہم معلومات کو چھپایا گیا ہے تو انہیں بعد ازاں سامنے آنے پر چیلنج کیا جاسکتا ہے اس وقت عدالت کے سامنے جو دستاویزات موجود ہیں وہ انتخاب کیلئے داخل کروائے گئے کاغذات نامزدگی کے وقت موجود نہیں تھیں ،غیر ممالک سے تنخواہ کی صورت میں کمائی گئی دولت کا ایک نیا رخ بھی ہے جس میں میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اگر جوابدہندہ نے اپنی تنخواہ پر اس ملک میں ٹیکس کی ادائیگی کر دی ہے تو اس پر پاکستان میں ٹیکس کی چھوٹ ہوگی ۔فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ انتخابی کاغذات نامزدگی داخل کرواتے وقت جوابدہندہ نے نا اہلی سے بچنے کیلئے یہ معلومات ظاہر نہیں کیں کاغذات نامزدگی میں ان معلومات کی عدم موجودگی کے سبب ریٹرننگ آفیسر نے ان کی انتخابات میں ان کی جیت کا نوٹیفکیشن جاری کیا لہذا جوبدہندہ کے وکیل کے موقف میں کوئی وزن نہیں ہے اس حقائق کی بنیاد پر یہ درخواست قابل سماعت قرار دی گئی لہذا ان حقائق کی روشنی میں یہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ جوابدہندہ انتخابات میں شریک ہونے کا اہل نہیں تھا اور وہ آئین کے آرٹیکل62کے نصاب پر پورا نہیں اترتا تھا لہذا اس درخواست کو قبول کیا جاتا ہے اور اس کی ایک نقل الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دوسری نقل سپیکر قومی اسمبلی کو ارسال کی جاتی ہے کہ وہ جوابدہندہ کو ان کی نشت سے برخواست کرنے کی قانونی کاروائی عمل میں لاکر اس کا نوٹیفکیشن جاری کریں سپریم کورٹ کے جسٹس صاحبان نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ وہ بوجھل دل کے ساتھ اس فیصلے پر دستخط کر رہے ہیں کہ ایک منجھا ہوا سیاست دان اپنے عہدے سے نا اہل ہو رہا ہے ۔
13-15
چونکہ آرٹیکل 63(2)(ایف)اور 1976 کے ایکٹ کی متعلقہ شقوں کا تعلق بنتا ہے ، اس لئے آئین اور ایکٹ کے متعلقہ شقوں کا جائزہ لیناضروری ہے ۔ اس سلسلے میں آرٹیکل 63(2)(ایف) کے اطلاق سے متعلق عدالتی فیصلے کا جائزہ بھی ناگزیر ہے ۔ درخواست گزار کے وکلا نے مفادات کے ٹکرا ¶ کا سوال بھی اٹھایا ہے ۔
10۔۔۔آئین کا باب نمبر 2پارلیمنٹ سے متعلقہ ہے ۔آرٹیکل 50کے مطابق مجلس شوریٰ(پارلیمنٹ) کے دو ایوان قومی اسمبلی اور سینیٹ ہونگے ۔آرٹیکل 51 کے مطابق قومی اسمبلی کی بشمول خواتین و غیر مسلموں کیلئے مختص نشستوں سمیت کل 342 نشستیں ہونگی جبکہ عام نشستوں کی تعداد 272 ہو گی ۔وہ شخص اس وقت تک الیکشن لڑنے اور پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اہل نہیں جب تک کہ وہ آرٹیکل 62 کی شرائط پر پورا نہ اترتا ہو جبکہ نااہلیت کا تعین آرٹیکل 63 میں کیا گیا ہے ۔آرٹیکل ون ایف کے مطابق وہ شخص منتخب ہونے یا پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اہل نہیں ہوگا جب تک کہ وہ صاد ق و امین نہ ہو اور اس کیخلاف عدالت کا کوئی فیصلہ نہ ہو ۔آرٹیکل 63 کی ذیلی شق 2 کے مطابق اگر سوالات جنم لیں کہ آیا مجلس شوریٰ کا رکن پارلیمنٹ کا رکن رہنے کا اہل نہیں رہا تب سپیکر یا چیئرمین اگر وہ یہ فیصلہ نہ کریں کہ ایسے سوالات نہیں اٹھتے ،وہ یہ معاملہ 30 دن کے اندر الیکشن کمیشن کو بھیج سکتے ہیں اور اگر وہ دیئے گئے وقت میں ایسا کرنے میں ناکام رہیں تب یہ سمجھاجاتا ہے کہ اس کا حوالہ دیا گیا ہے ۔
11۔۔۔۔۔1976 کا ایکٹ بنانے کا مقصد ابتدایئے میں دیا گیا ہے جس کے مطابق قومی اسمبلی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد کرانا ا ور ان کو کرپشن ، غیر قانونی جرائم و پریکٹسز سے محفوظ کرناہے ۔شق 2 میں کئی چیزوں کا اظہار کیا گیا ہے ۔شق 11اختیار دیتی ہے کہ صدر اس بات کا اعلان کرینگے کہ کس تاریخ کو کونسے انتخابات منعقد ہونگے ،یہ الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ حلقے کے نمائندے یا نمائندوں کو منتخب کرنے کیلئے اقدامات کرے ۔شق 12 کی ذیلی شق 2 کے تحت تمام کاغذات نامزدگی وضع شدہ فارم پر جمع کراناہونگے جس پر تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کے دستخط کرائے جائینگے اور اس پر امیدوار کی تصدیق اور دستخط ہونگے ،جس میں تعلیمی قابلیت ،پیشہ بارے تصدیق شدہ کاپیاں دی جائینگی ۔شق 99ون ایف کے مطابق وہ شخص الیکشن لڑنے یا پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اہل نہیں ہوگا جو صادق اور امین نہ ہو اور جس نے شق 12کی ذیلی شق 2 میں دیئے گئے قرضوں کی تفصیل کے مطابق قرضے ادا کرد یئے ہوں ۔
12۔۔۔۔۔۔مندرجہ بالا آئین کی شق اور 1976 کے ایکٹ سے یہ بات واضح ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف اور شق 99ون ایف الیکشن لڑنے اور پارلیمنٹ کا رکن بننے کی اہلیت کی بنیاد ہیں ۔ان شقوں میں دی گئی خوبیوں میں وسیع گنجائش ہے ۔ مذکورہ خوبیوں کی تشریح اور ان کو لاگو کیے جانے بارے اعلیٰ عدلیہ نے اب تک اپنے کئی فیصلوں میں اس کی جانچ کی ہے ۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اسحق خان خاکوانی و دیگر بنام میاں محمد نواز شریف و دیگر نے اپنے اختلافی نوٹ میں ان الفاظ میں اس کی وضاحت کی کہ "یہ بدقسمتی ہے کہ25 سال قبل ایک نوجوان وکیل کے طور پر کی گئی ڈراﺅنی تشریح ریٹرننگ افسر ،الیکشن ٹربیونل اور ملک کی اعلیٰ عدالتوں کو اذیت پہنچا رہی ہیں ۔ لیکن جو آئین کی ان تکلیف دہ شقوں کو مناسب ترامیم کے ذریعے بدلنے کے ذمہ دار تھے ،ایک طویل عرصے تک سوئے رہے اور وہ ابھی بھی جاگنے کے آثار نظر نہیں آرہے ۔ابہام اور غیر عملی کا ازالہ کرنے تک کسی کو بھی ریٹرننگ افسر،الیکشن ٹربیونلز اور اعلیٰ عدالتوں سے شکایت نہیں کرنی چاہیے جو عام طور پر آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت ان امیدواروں کو پکڑنے میں ناکام رہتے ہیں جوبرے کردار کے حامل ہوں ،خصوصاً جب عوام ایسے امیدواروں کو منتخب کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور ان کے کردار بارے جانتے ہوئے انہیں بھاری اکثریت سے نوازتے ہیں ۔
13۔۔سپریم کورٹ کے فیصلے بتاریخ 25.03.2015 کو سول اپیل نمبر 91/2015 عبدالوحید چودھری بنام رانا عبدالجبار وغیر ہ میں پیش کیا گیا نے اس اظہار کی تشریح کی ہے جو کہ 62 ون ایف میں استعمال کیا گیا ہے ، فاضل الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کی طرف بڑھنے سے قبل کہ درخواست گزار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کے آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کا اہل نہیں تھا ۔62ون ایف پر روشنی ڈالنا موزوں ہے جو کہ اس طرح ہے ۔
آرٹیکل 62۔1۔ ایک شخص منتخب ہونے ،پارلیمنٹ کا رکن بننے کیلئے اہل نہیں ہو گا
ایف ۔۔۔۔جب تک کہ وہ زیرک ،صادق اور امین نہ ہو ،اور اس کے خلاف عدالت سے فیصلہ نہ آیا ہو۔

آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کرتے ہوئے عدالت نے صادق ،امین اور سچا ہونے کی اپنے کئی فیصلوں میں تشریح کی ہے ۔مقصود احمد قریشی بنام پاکستان مقدمے میں یہ طے کیا گیا ہے کہ امین کا مطلب سچا،قابل اعتماد اور عاقل ہو گا ۔لہذا اس سے یہ اصول واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی شخص جس کا خدمات کیلئے تقرر کیاجانا مقصود ہو ،اس میں دو بنیادی خوبیا ں ہونی چاہئیں ۔ایک وہ جسمانی و ذہنی لحاظ سے صحت مند ہو اور دوسرا یہ کہ وہ سچا اور قابل اعتماد ہو ،بالکل اسی طرح مبشر حسین بنام وفاق پاکستان میں امین کی تعریف اسلامی انسائیکلو پیڈیا
دوسری جانب لفظRighteous کے بارے میں محمد یوسف بنام ایم ارشاد سپرا و دیگر(1988CLC2475 ) میں طے کیا گیا کہ چونکہ اس لفظ کی تشریح نہیں کی گئی اس لئے لغت میں اس لفظ کے جو معنی درج ہیں انہی کو کافی سمجھا جائے گا، لغت کے مطابق اس لفظRighteous کے معنی ہیں اخلاقی طور پر بالکل درست، انصاف پسند، نیک، اعلیٰ اقدار پر عمل کرنے اور قانون کی پابندی کرنے والا، آکسفورڈ انگلش ڈکشنری والیوم نمبر7 کے صفحہ نمبر677پر درج مفہوم کے مطابق اس کا مطلب ایک ایسا شخص ہے جو نیک عمل کرتا ہو، گناہوں سے محفوظ ہو، جوانصاف کرتا ہو اور اعلیٰ اقدار کی پاسداری کرتا ہو، اس شخص کا عمل اللہ کے عطا کردہ اخلاقی معیارات کے مطابق ہو۔

لفظ Honest کی تعریف چوہدری الطاف حسین بنام راجہ ایم افضل(PLD1986 Jaur 93 ) میں کی گئی ہے اس مقدمے کے فیصلے میں فاضل جج نے لکھا کہ لفظHonest کی وضاحت کیلیے میں ب سے پہلے لاطینی اصطلاحHONESTE کا ذکر کروں گا، اس کے معنی بلیکس لاءڈکشنری کے تیسرے ایڈیشن کے صفحہ نمبر902 پر دیے گئے ہیں، اس کے مطابق لفظHonest کا مطلب ہے ایک ایسا شخص جو باوقار ہو، قابل اعتبار ہو اور اعلیٰ انسانی اوصاف کا حامل بھی ہو، اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ایسا شخص کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا اور ہر ایک کو اس کا حق ضرور دیتا ہے ، علاوہ ازیں ویب سیٹرز کی تیسری نئی انٹرنیشنل ڈکشنری جلد نمبر ایک کے 1971ءکے ایڈیشن میں صفحہ نمبر1086 پرHonest کا مفہوم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایسا شخص جو کبھی دھوکا دہی یا بد دیاتی میں ملوث نہ ہوا ہو، سچ بولتا ہو، کبھی کوئی ناجائز کام نہ کرتا ہو اور جو اچھی شہرت کا مالک ہو، معاشرے میں اسے ان اوصاف کی بدولت قابل تعظیم سمجھا جاتا ہو، ایسا شخص ہمیشہ حق کی بات کرتا ہو اور اپنی ان خوبیوں اور اصولوں کی پاسداری اور نیک عمل کی بنا پر اسے معاشرے میں قابل اعتبار سمجھاجاتا ہو۔

14۔ اس مقدمے میں سپریم کورٹ نے ایک کامیاب امیدوار کو اس بناءپر نااہل قرار دیا تھا کہ اس نے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ متعارف کئے جانے سے قبل اپنے 2 شناختی کارڈز بنوائے ہوئے تھے ۔ رائے حسن نواز بنام حاجی محمد ایوب و دیگر(PLD 2017 S.C 70 ) کے مطابق عدالت نے 1976 کے متعلقہ ایکٹ کا بغور جائزہ لینے کے بعد قرار دیا تھا کہ امیدواروں سے بیان حاصل کرنے کے اہم مقاصد میں عوام الناس کے حقوق کا تحفظ بھی ہے ، علاوہ ازیں اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ الیکشن لڑنے والے امیدوار قابل اعتبار ہوں اس قبل محمد یوسف کا سیلیا بنام پیر غلام(PLD-2016-SC689) میں قرار دیا گیا کہ یہی وجہ ہے کہ کئی حالیہ فیصلوں میں عدالت نے امیدواروں کی جانب سے اپنی جائیداد اور مالی وسائل سے متعلق غلط بیانی کو سنگین معاملہ قرار دیتے ہوئے ایسے شخص کو الیکشن میں حصہ لینے کیلئے نااہل قرار دے دیا تھا۔ اسی طرح ایک اور مقدمے محمد احمد چٹھ بنام افتخار احمد چیمہ (2016 SCMR 763 ) جب ایک کامیاب امیدوار اپنا ایک ایسا بینک اکاﺅنٹ ظاہر نہیں کیا تھا جس میں کافی عرصے سے کوئی لین دین نہیں ہوا تھا تو اس امیدوار کے انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ اسی طرح شامنہ بادشاہ قیصرانی بنام محمد داﺅد (2016 SMR 1420 ) میں ایک کامیاب خاتون امیدوار کے انتخاب کو اس وجہ سے کالعدم قرار دیا گیا تھا کہ ان کے بیان کے مطابق انہوں نے اپنی زرعی جائیداد اپنے بھائیوں کے نام منتقل کردی تھی لیکن اس انتقال اراضی کی کوئی دستاویز نہیں بنوائی گئی تھی۔

15) لہٰذا اوپر درج دونوں مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئین نے کسی بھی شخص کے مجلس شوریٰ کی( پارلیمنٹ) کارکن بننے کیلئے بعض شرائط مقرر کی ہوئی ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی حلقے کے عوام جب کسی بھی شخص کو اپنا نمائندہ منتخب کر کے اس پر اظہار اعتماد کریں اور اس بناءپر اس شخص کو ایک مقام اور مرتبہ حاصل ہو جائے تو اسے ایک باوقار ، دیانتدار ار قابل اعتماد شخصیت ہونا چاہئے ، خود مجلس شوریٰ( پارلیمنٹ) نے جب آئین میں18ویں ترمیم کی تو آرٹیکل62 (1) (f) پر تفصیلی غور اور مباحثے کے باوجود اسے برقرار رکھا۔

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مجلس شوریٰ( پارلیمنٹ) نے خود پارلیمنٹ کا رکن بننے والوں کیلئے اہلیت کا ایک اعلیٰ معیار مقرر کردیاہے ۔
فاضل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے عمران احمد خان نیازی بنام میاں محمد نواز شریف و دیگر 9افراد کیخلاف مقدمے (PLD 2017 sc 265 ) میں قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل62 (1) (F) میں استعمال کئے گئے لفظHonest کا مطلب محض رسمی اخلاق نہیں بلکہ وسیع معنوں میں کسی شخص کا کردار ہے جس میں قانونی مفہوم میں دیانت بھی شامل ہے یقیناً اس فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل کے تحت کسی بھی شخص کو اس وقت تک نااہل قرار نہیں دیا جائے گا جب تک کہ اس کے خلاف اس قانون کی خلاف ورزی ثابت نہ ہو جائے۔

16۔ اب اہم معاملہ یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62(1)(F) اور سیکشن 99(1)(F) کے تحت کسی بھی امیدوار کی جانب سے کاغذات نامزدگی میں غلطی یا بعض حقائق کو ظاہر نہ کرنے پر اس کیخلاف کارروائی کی کیا بنیاد ہو؟ اس کا مختصر اور جامع جواب یہی ہو سکتا ہے کہ حقائق کو ظاہر کرنا ہر امیدوار کی کلی ذمے داری ہے خواہ یہ غفلت کے باعث ہوئی ہو یا دانستہ کی گئی ہو ، یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی کامیاب امیدوار تمام حقائق کو ظاہر نہیں کرتا تو1976 کے ایکٹ کے تحت کیا اسے کیا اسے صادق، امین، دیانتدار اور قابل اعتبار ہونے کے اعزاز سے محروم کیا جا سکتا ہے ؟
سپریم کورٹ نے رائے حق نواز وغیرہ بنام حاجی محمد ایوب وغیرہ کے مقدمے کے فیصلے میں کہا کہ عدالت سمجھتی ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے کسی بھی امیدوار کی جانب سے اپنے اثاثوں اور واجبات سے متعلق بیان کی نوعیت کیا ہے ؟ یہ ارادی ہے یا غیر ارادی اور اس کے عوض امیدوار کو کیا فوائد اور سہولتیں حاصل ہوئی ہیں؟

17۔ تاہم سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلوں میں بہت واضح طور پر ان معیارات کا ذکر کر دیا ہے جن کی بنیاد پر غلط بیانی کرنے والے کسی امیدوار کو نااہل قرار دینے یا ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے ،اس سلسلے میں عمران احمد خان نیازی بنام میاں محمد نواز شریف و دیگر(PLD-2017-SC692 ) میاں محمد نواز شریف وغیرہ بنام عمران خان نیازی(PLD 2018 SC-1 ) محمد حنیف عباسی بنام جہانگیر خان ترینPLD 218 SC 189 اور عدالت عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ جو13 اپریل2018 کو سنایا گیا بہت اہمیت کا حامل ہے ، یہ سول اپیل نمبر233 میں اٹھایا گیا تھا ،یہ اپیل سمیع اللہ بلوچ نے عبدالکریم نوشیروانی کیخلاف2015 میں دائر کی تھی۔

18۔ ایک حالیہ مقدمے میاں محمد نواز شریف بنام عمران احمد خان نیازی(PLD 2018 SC 1 ) میں فاضل عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ
استدلال یہ ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ جو تنخواہ وصول نہیں کی گئی وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک اثاثہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو تنخواہ وصول نہیں ہوئی اسے بطور اثاثہ ظاہر نہ کرنا عوامی نمائندگی کے ایکٹ کی دفعات 12 اور 13 کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اس کی بناءپر متعلقہ امیدوار کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے جا سکتے ہیں اور ایسے شخص کو منتخب عہدے سے برطرف کیا جا سکتا ہے ، تاہم یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایسے امیدوار کیخلاف کارروائی آئین کی متعلقہ دفعات سیکشن ROPA 92(1)(F) کے سیکشن 99(1)(f) اور آئین کے آرٹیکل62(1)(F) کے تحت نہیں ہوگی، حالانکہ ان لوگوں نے اپنے کاغذات نامزدگی کے ساتھ حلف نامہ بھی دیا تھا لہٰذا ان افراد کیخلاف کارروائی ضروری ہو گئی ہے کیونکہ اگر اس مرحلے پر قصور وار امیدواروں کیخلاف کارروائی نہ کی گئی تو اس کے ملکی سیاست پر تباہ کن اثرات ہونگے ۔چونکہ آئین وقانون کی یہ خلاف ورزیاں بڑے پیمانے پر کی جارہی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ اس کے ذمے دار کرپٹ عناصر کیخلاف سخت ترین کارروائی کی جائے کیونکہ ایسے لوگوں کو سزا نہ دینے کامطلب پورے نظام اورمعاشرے کو برباد کرنا ہوگا،اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ معاشرے میں بدعنوانیاں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں، ان کی روک تھام کیلئے بھی انتہائی اقدامات ضروری ہوچکے ہیں،قصوروار امیدواروں کے ساتھ رعایت کرنے کی روایت معاشرے کی اصلاح کیلئے بے سود ثابت ہوچکی ہے ، اس کے برعکس اس “کلچر ” کی وجہ سے عوام اور سسٹم دونوں بری طرح کرپشن کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک دلیل یہ بھی دی گئی تھی کہ اپنے اثاثوں کوظاہر نہ کرنا انسانی غلطی بھی ہوسکتی ہے ۔لیکن زیرنظرمقدمے کے حوالے سے یہ دلیل قطعی ناقابل قبول ہے ، اس لئے کہ متعلقہ امیدوار سیاست اور تجارت دونوں شعبوں میں تووارد نہیں ہے ۔جو شخص 1980ءکی دہائی سے کاروبار اور سیاست دانوں میں پوری طرح شریک رہاہو اور جس کے بارے میں یہ کہنا برمحل ہو کہ وہ کئی برس سے گردن تک سیاست اور تجارت میں ڈوبا ہوا ہے اس کے بارے میں یہ قیاس بھی نہیں کیاجاسکتا کہ وہ اتنی سی بات نہیں جانتا کہ اس نے ساڑھے چھ برس کی جو تنخواہ وصول نہیں کی وہ اکاﺅنٹنگ اورکاروبار کے تسلیم شدہ قواعد اوراصولوں کے تحت قابل وصولی رقم اور اس کا اثاثہ ہے ، اور جس کمیٹی کا وہ ملازم ہے اس کیلئے قابل ادائیگی رقم اور واجبات ہیں۔

19۔عدالت عظمیٰ نے محمد حنیف عباسی بنام عمران خان نیازی ،مقدمہ نمبرSC189 PLD 2018میں اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ “اس معاملے میں عدالت ایک ایسے اثاثے کے معاملے کودیکھ رہی ہے جسے ظاہر نہیں کیا گیا جبکہ اس کی موجودگی سے انکار بھی نہیں کیاجارہا ہے ، جس کمپنی سے تنخواہ وصول کرنی ہے اس کے مالی معاملات پہلے ہی مشکوک ہیں اور ان کا تعلق ایک ایسے نیٹ ورک سے ہے جو کثیر اثاثوں کے مالک افراد پر مشتمل ہے۔

مذکورہ بالا پیرا میں عدالت ایک غیر ظاہر شدہ اثاثے کا حوالہ دے رہی ہے جس کے وجود کا اعتراف ایک ایسی مالیاتی اکائی کر رہی ہے جس کے بارے میں پہلے ہی شکوک پائے جاتے رہے ہیں۔ یہ مالیاتی اکائی ایسے اشخاص اور اداروں کے نیٹ ورک کا حصہ تھی جس کے غیر متناسب اثاثوں کو سابق وزیر اعظم، ان کے بینیفشریز اور نے نام داروں سے وابستہ قرار دیا جاتا رہا ہے ۔ایسے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مذکورہ فیصلے میں مبینہ منصوبے ، ارادے ، تناظر یا امپروپرائٹی کے بغیر ہی عدم دیانت قرار دی گئی ہے ۔ جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں، بینچ کے ارکان نے آئین کے آرٹیکل 61(1) کے مطابق نا اہلی قائم کرنے کے لیے قانون ساز ایوان کے متعلقہ رکن کے حوالے سے عدم دیانت کی شرائط کو نظر انداز نہیں کیا۔ اس حوالے سے ROPA کے سیکشن 99(f) کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ آئین کے ہر لفظ کا واضح مفہوم اور تاثر ہے جس پر غور کرنا لازم ہے ۔ کسی بھی لفظ کے مفہوم کے حوالے سے کسی بھی غلطی کو آئین کے کھاتے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ اسی عدالت کے دیگر فیصلوں میں بھی دیانت دار اور امین ہونے کے حوالے سے آئین کے متعلقہ آرٹیکل کے الفاظ اور ان کے مفاہیم کی روح کو مکمل طور پر ذہن نشین رکھا گیا ہے۔

درخواست دہندہ کے وکیل کا موقف یہ تھا کہ انتخابی امیدوار بننے کے حوالے سے اعلامیے میں کسی بھی اثاثے کا ذکر نہ کیا جانا یا کوئی غلطی کر جانا قانونی اعتبار سے وسیع تر مفہوم رکھتا ہے کیونکہ اس سے بدعنوانی یا بے قاعدگی، منی لانڈرنگ، اختیارات سے بڑھ کر اثاثے بنانے اور ایسے ہی دیگر امور کا تاثر بھی ابھرتا ہے ۔ زیر نظر کیس میں کسی بھی سرکاری عہدے سے فائدہ اٹھانے اور اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے بدعنوانی کے ارتکاب یا سرکاری فرائض کے ادا کرنے میں غفلت کے ارتکاب کا کوئی معاملہ نہیں اس لیے درخواست دہندہ کے فاضل وکیل کی دلیل بے محل اور ناکام ٹھہرتی ہے ۔
شیخ محمد اکرم بنام عبدالغفور کیس 2016 SCMR 733)) میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ امیدوار جس کا استحقاق نہیں رکھتا تھا وہ فائدہ اسے پہنچانے کے لیے کوئی نہ کوئی غلط معاملہ ضرور وقوع پذیر ہوا ہوگا یا پھر کچھ نہ کچھ چھپایا گیا ہوگا۔ مذکورہ بالا اصولوں اور قانون کی روشنی میں ٹیسٹ کو دو درجات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ اول یہ کہ کوئی پہلی بار الیکشن لڑ رہا ہے اور متعلقہ امور کے بارے میں سب کچھ نہیں جانتا اور دوسرے یہ کہ جو لوگ پہلے الیکشن لڑچکے ہیں وہ چونکہ سب کچھ جانتے ہیں اس لیے انہیں “بھولپن” کی رعایت نہیں دی جاسکتی۔ سپریم کورٹ نے فرق نمایاں کرنے کی غرض سے یہ نکتہ بیان کیا تھا۔ موخر الذکر معاملے میں اسٹینڈرڈ یا بار خصوصی (فینومینل) حیثیت رکھتا ہے ۔ بہر کیف، عدم دیانت پہلے سے طے شدہ نکتہ نہیں۔ مالیاتی اثاثوں سے متعلق ادھوری یا غلط معلومات فراہم کرنا یا کوئی بات چھپانا کسی نہ کسی فائدے کے حصول کے لیے سوچی سمجھی اسکیم کے تحت اور ادارے کے تحت ہوتا ہے ۔ یوں یہ سخت تر مفہوم میں ذمہ داری کا ٹیسٹ نہیں کیونکہ ارادے یا نیت کا عنصر پہلے سے طے شدہ نہیں۔ اگر اثاثوں کے بارے میں سب کچھ کھل کر بیان کردیا جائے اور کچھ بھی غیر بیان شدہ نہ رہنے دیا جائے تو آئین کے آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت قرار پانے والی کسی بھی شرارت کا غلط بیانی کا شائبہ تک نہیں ابھرتا۔ اسی طور اگر کوئی امیدوار اپنے گوشوارے میں کوئی بات بیان کرنا بھول گیا ہے مگر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا محض غلطی سے ہوا اور کوئی غلط ارادہ نہیں تھا تو وہ قابل احتساب نہیں ٹھہرتا۔ آئین کے متعلقہ آرٹیکل کے تحت کی جانے والی جانچ پڑتال اخلاقی یا موضوعی بنیاد پر نہیں کی جاتی۔ یہ شرط اس بات کا پابند نہیں تو کرتی کہ کوئی ہر اعتبار سے جامع ہو تاہم یہ لازم ہے کہ وہ ایماندار، صاف گو اور قابل اعتبار ہو۔ مذکورہ بالا فیصلوں میں جس ٹیسٹ کا ذکر کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے ، اس سے کہیں بھی کبھی بھی خطا سرزد ہوسکتی ہے ۔ 1976 کے ایکٹ کے سیکشن 12 کے تحت معلومات کا عوام پر ظاہر کیا جانا دراصل اس مقصد کے تحت ہے کہ انتخابات سے متعلق تمام معاملات شفاف ہوں۔ کسی بھی جمہوری سیٹ اپ میں سب سے بڑے اور اہم ترین اسٹیک ہولڈرز حلقے کے لوگ (ووٹرز) ہیں۔ ووٹر کو چونکہ امیدواروں میں سے اپنے لیے بہترین نمائندہ منتخب کرنا ہوتا ہے اس لیے لازم ہے کہ تمام امیدواروں کی جانب سے بیان کی جانے والی باتیں درست ہوں اور بالخصوص چیلنج کی جانے والی باتوں کی بھرپور طریقے سے وضاحت کی گئی ہو۔

اب ہم اس مقدمہ کے سلسلہ میں ان حقائق اور واقعات کا حوالہ دیں گے تاکہ جائزہ لیا جاسکے کہ کیا مدعا علیہ مذکورہ بالا اصولوں اور قانون کی روشنی میں آئین کے آر ٹیکل 62(ون )(ایف) کے تحت اہل ہے -مدعا علیہ کو یہ استحقاق حاصل تھا کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 110 سے ، 1993، 1997، 2002، اور 2008، اور آخر میں 2013 کے عام انتخابات میں اس نے انتخابی گوشوارے داخل کئے۔ ان انتخابی گوشواروں میں مدعا علیہ نے تعلیمی اہلیت کے کالم میں یہ ڈکلیئر کیا کہ وہ لا گریجویٹ ہے -یقیناً مدعا علیہ ایک تجربہ کار سیاستدان ہے اور اسے کسی بھی طرح سیاست کے میدان میں اناڑی نہیں سمجھا جاسکتا - لا گریجویٹ ہونے کی وجہ سے مدعا علیہ گوشوار ہ میں غلط بیانی کرنے کے مضمرات اچھی طرح سمجھتا ہے -مدعاعلیہ نے جب 30 مارچ 2013 کو کاغذات نامزدگی دستخط کرکے جمع کرائے تھے تو اس وقت اس نے ایک دوسرے ملک کے قاعدہ قانون کے مطابق چلنے والی کمپنی سے تنخواہ یا ماہانہ اجرت لینے کا پہلا کنٹریکٹ کیا تھا -پہلا کنٹریکٹ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے منظور کیا تھا اور بعد میں کمپنی نے اپنے مینیجنگ ڈائرکٹر کے دستخط سے جاری ہونے والے ایک سرٹیفیکیٹ میں اس امر کی توثیق کردی تھی-پہلے کنٹریکٹ کی متعلقہ شق کا اوپر حوالہ دیا جاچکا ہے -روزگار کے معاہدہ کے تحت متحدہ عرب امارات کے وفاقی لیبر لا نمبر 8 مجریہ 1980 کے تحت آرٹیکل 120 کے تحت کوئی بھی ملازم اس سٹیبلشمنٹ کا کوئی راز افشا نہیں کرے گا جس میں وہ کام کر رہا ہے۔ مسلسل 20 دن سے زیادہ یا 7 ایک سال کے دوران یا مسلسل 7 دن سے زیادہ کسی جائز جواز کے بغیر ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنے والے ملازم کی نوکری ختم کی جا سکتی ہے۔

پہلے کنٹریکٹ میں جو زبان اور اصطلاحیں استعمال کی گئی ہے اس سے قطعی طور پر یہ واضح ہوتا ہے کہ روزگار کل وقتی بنیادوںپر فراہم کیا گیا - مدعا علیہ اور کمپنی کے درمیان نتعلقات ، پہلے لنٹریکٹ میں استعمال کی جانے والی اصطلاحوں کی روشنی میں اجر اور اجیر کے تعلقات تھے -اس کی مزید تصدیق ملازمین کی اس فہرست سے بھی ہوتی ہے جس میں مدعا علیہ کا نام 303 ویں نمبر پر درج تھا-فرسٹ کنٹریکٹ کی بنیاد پر مدعا علیہ کا نام درج کرکے اسے ایک شناختی کارڈ جاری کیا گیا تھا- یہ کارڈ متحدہ عرب امارات کی وزارت محنت نے لیبر کیٹیگری میں جاری کیا تھا-اس حیثیت میں مدعا علیہ کو رہائشی ویزا مل گیا تھا اور اس کے حق میں ایک اقامہ بھی جاری کردیا گیا-مدعا علیہ نے جب کاغذات نامزدگی جمع کرائے تو وہ ایک بیرون ملک کمپنی کے باقاعدہ ملازم تھے -اور وہ باقاعدہ کمپنی سے تنخواہ لے رہے تھے -چونکہ بیرون ملک ملازمت کا انکشاف کرنے سے ان کے حلقہ انتخاب کے ووٹروں کے ذہن میں انکے مفادات، بیرون ملک نوکری اور نوکری کی شرائط و ضوابط کے بارے میں کے بارے میں سنگین سوالات جنم لیتے ، اس لئے مدعا علیہ نے کاغذات نامزدگی کے کالم نمبر 8 میں اپنا پیشہ محض بزنس ظاہر کیا -اثاثو ں اورواجبات کے سلسلہ میں داخل کردہ بیان میں بیرون ملک سے حاصل ہونے والی آمدنی 6820 ملین روپئے ظاہر کی گئی- اس مبہم بیان کو دیگر امیدواروں کی طرف سے ریٹرننگ آفیسر کے سامنے چیلنج کیا گیا -جس کے نتیجہ میں لاہور ہائی کورٹ کے فاضل الیکشن ٹریبیونل کے سامنے اپیل کی گئی-گراونڈز آفمیمو آف پٹیشن ان الیکشن اپیل نمر 144-اے 2013 کے پیرا گراف سی میں واضح طور پر یہ اعتراض کیا گیا کہ جوابدہ نمر 2 نے جوابدہ نمر ایک یا ریٹرننگ آفیسر کے سامنے گمراہ کن مالی حقائق پیش کئے ہیں کیونکہ گزشتہ تین سال کے دوراںغیر ملکی ریمیٹینس سے خطیر پیمانہ پر آمدنی ہوئی لیکن ذریعہ آمدنی یا بھیجنے والے کا نام یا ملک کا پتہ نہیں چلا-اس سلسلہ میں مدعا علیہ کا جواب یا موقف ریٹرننگ آفیسر نے سنا اور 17 اپریل 2014 کو ریکاردکیا گیا جو کچھ اس طرح ہے کہ مزید یہ بتاایا گیا کہ تمام ریمیٹینس جو جوابدہ نمبر 2 کو بینک کے ذریعہ وصول ہوئے وہ اس بزنس سے حاصل ہوئے تھے جو جوابدہ نمر2ریستوران چلاکر حاصل کررہا تھا جس کی پوری وضاحت کردی گئی۔

مدعا علیہ کے فاضل وکیل کوئی ایک بھی ایسی دستاویز پیش نہیں کرسکے جس سے یہ بات مترشح ہوتی ہو کہ فرسٹ کنٹریکٹ والے آجر سے اجرت یا تنخواہ کی مد میں حاصل ہونے والی رقم کا گوشواروں میں کہیں ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ بات بھی تسلیم کی گئی ہے کہ بیرون ملک سے آنے والی رقم کے حوالے سے پائے جانے والے ابہام کو دور کرنے اور معاملات کو درست کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ کے ٹربیونل کے 17 اپریل 2013 کے آرڈر میں درج ہے ۔ Occupation دراصل درجہ بندی کے لیے استعمال کی جانے والی اصطلاح ہے جس میں کاروبار، ملازمت اور پیشہ تینوں میں شامل ہیں۔ پہلا کنٹریکٹ ملازمت کا کنٹریکٹ تھا جس میں مدعا علیہ ملازم کی حیثیت سے مذکور ہے ۔ پاکستان کے وزیر خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد بھی مدعا علیہ کی یہ ملازم والی حیثیت برقرار رہی۔ یہ بات اب اظہر من الشمس ہے کہ مدعا علیہ نے اپنی ملازم کی حیثیت اور تنخواہ کی وصولی کا معاملہ واضح طور پر بیان نہیں کیا جبکہ مخالف امیدواروں کی جانب سے اس پورے معاملے کو چیلنج بھی کیا گیا۔ تیسرے کنٹریکٹ کے تحت اقامے کے تحت ملازم کی حیثیت برقرار رکھی گئی اور باضابطہ موجودگی یقینی بنائے بغیر ماہانہ 50 ہزار درہم تنخواہ وصول کی جاتی رہی۔ یہ معاملہ طشت از بام کیے جانے کی صورت میں مدعا علیہ یعنی وزیر خارجہ کو اقامے سے دست بردار ہونا پڑتا اور تنخواہ کی وصولی بھی ترک کرنا پڑتی۔ ہم نے بہت غور و خوض کیا مگر اپنے آپ کو اس امر پر قائل نہ کرسکے کہ اقامہ اور تنخواہ کی وصولی کے حوالے سے معلومات کا بیان نہ کیا جانا محض بھول چوک تھا یا سادگی پر مبنی تھا۔ بیرون ملک سے موصول ہونے والی رقم کے مشکوک ہونے پر چیلنج کیے جانے کے بعد بھی بیرونی ملازمت اور تنخواہ کی وصولی کے معاملے کو واضح طور پر بیان کرنے اور ابہام دور کرنے سے گریز کیا گیا۔ بینک آف ابو ظہبی میں اکاؤنٹ کی موجودگی کا بیان نہ کرنا بھی اسی ذیل میں ہے۔