اسلام آباد: (دنیا نیوز) شریف خاندان کے خلاف العزیز ریفرنس میں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کا بیان تیسرے روز بھی جاری رہا۔ واجد ضیاء نے کہا قطری شہزادے کے دونوں خط افسانہ تھے، جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ کرنے کی کوشش کی، مگر شہزادے نے تاخیری حربے استعمال کیے۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے العزیزیہ ریفرنس کیس کی سماعت کی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر عدالت میں پیش ہوئے۔ نجی بینک کی منیجر نورین شہزادی نے نواز شریف کے بینک اکائونٹس کی ٹرانزیکشن کا ریکارڈ جمع کرا دیا۔ واجد ضیاء نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا کہ گلف سٹیل مل کی فروخت سے متعلق شریف خاندان کے دعوے کی تصدیق کیلئے یو اے ای کو خط لکھا، یو اے ای نے گلف سٹیل ملز کے 25 فیصد شیئرز کی فروخت کا دعویٰ غلط قرار دیا، گلف سٹیل کی فروخت سے 12 ملین درہم کی ٹرانزیکشن کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ملا۔
واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ حسن، حسین اور مریم نواز نے جعلی دستاویزات پیش کیں اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹ سمیت تمام بزنس کے فنڈز کیلئے پیش کی گئی دستاویزات بھی جعلی نکلیں۔ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے واجد ضیاء کے بیان پر اعتراض کیا اور کہا کہ واجد ضیاء اپنا تجزیہ اور رائے بطور بیان ریکارڈ کروا رہے ہیں۔ یہ جن پراپرٹیز کا ذکر کر رہے ہیں وہ اس کیس سے غیر متعلقہ ہے۔
واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ آہلی سٹیل ملز کے سکریپ کی تفصیل کا حسین نواز کا دعوی بھی جھوٹا نکلا، حسین نواز نے مشینری کی ٹراسنپورٹ سے متعلق غلط بیانی کی، حسین نواز نے کہا کہ 50 ٹرکوں میں فیکٹری کا سکریپ شفٹ کیا۔ دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر اور خواجہ حارث کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ نیب پراسیکیوٹرکا کہنا تھا کہ خواجہ حارث کے اعتراض کی چھٹی لائن جاری ہے، خواجہ حارث بیان لکھوا لیں ہم جرح کر لیں گے۔
واجد ضیاء نے بتایا کہ طارق شفیع نے 1986 اور 87 میں نیا بینک اکاونٹ کھول کر مزید قرضہ لیا، ایم ایل اے کے جواب میں یو اے ای نے طارق شفیع کے ڈیفالٹ ہونے کے متعلق سزا کا حکم نامہ بھجوایا۔ 1986 میں نئے بینک اکاونٹ کھولنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام واجبات سیٹلڈ ہوچکے تھے تاہم جے آئی ٹی کو یہ نہیں بتایا گیا کہ واجبات کن ذرائع سے ادا کئے گئے۔ العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس کی سماعت منگل تک ملتوی کر دی گئی۔ واجد ضیاء بیان قلمبند کرائیں گے۔