لاہور: (دنیا نیوز) دنیا کے کئی ممالک میں ایک حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد نگران سیٹ اپ نہیں آتا، لیکن پاکستان میں 28 سال سے نگران وزیراعظم کی روایت موجود ہے، الیکشن کمیشن کی موجودگی میں نگران حکومت اور وزیراعظم کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے۔
متعدد دیگر ممالک میں موجود نظام کے برعکس ہمارے ہاں 1990 میں غلام مصطفی جتوئی کی صورت میں پہلی بار نگران وزیراعظم کی ریت پڑی، یہ ایسی روایت تھی، کہ آج تک جان نہ چھوٹی۔
اگرچہ ہمارے ہاں نگران حکومتیں اور وزیراعظم بنتا ہے، تاہم الیکشن ایکٹ 2017ء کی اصلاحات میں شق 230 کے تحت ان کے اختیارات محدود ہیں۔ اس ایکٹ کے تحت نگران حکومت صرف روز مرہ کے ضروری حکومتی امور ہی چلائے گی۔ انتخات میں الیکشن کمیشن کی مدد کرے گی، کسی صورت میں انتخابات پر اثرانداز نہیں ہوسکتی، اس کے اقدامات بھی تبدیل کئے جا سکتے ہیں۔
اسی طرح نگران حکومت ہنگامی معاملات کے علاوہ پالیسی فیصلے نہیں کرسکتی، نہ ہی ایسے فیصلے کر سکتی ہے جو آنے والی حکومتوں کی اتھارٹی پر اثرانداز ہوں۔ نگران حکومت کوئی ایسا معاہدہ بھی نہیں کر سکتی جس سے عوامی مفاد کو نقصان پہنچتا ہو۔
الیکشن ایکٹ کے مطابق، نگران حکومت عالمی معاہدوں یا مذاکرات کا اختیار نہیں رکھتی، ایسی حکومت کسی کو ملازمت دے سکتی ہے نہ نکال سکتی ہے، اعلیٰ سطح کی تقرریاں کرنے اور ترقی دینے کا اختیا بھی اس کے پاس نہیں ہوگا، الیکشن کمیشن کی اجازت کے بغیر تبادلے کا بھی اختیار نہیں ہوگا۔
الیکشن ایکٹ 2017 سے پہلے نگران وزیراعظم کو بھی وہ تمام جنرل اختیارات حاصل ہوتے تھے جو نارمل حالات میں کسی منتخب وزیراعظم کو حاصل تھے۔
ماہر قانون، بیرسٹر علی ظفر کا موقف ہے کہ نگران حکومت کا غیر جانبدار ہونا ناگزیر ہے، اس سیٹ اپ کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق پورے الیکشن پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ماہر قانون سعد رسول سمجھتے ہیں، اگر مدت ختم ہونے کے بعد بھی وہی حکومت اقتدار میں رہے تو وہ سیٹ اپ الیکشن پر اثر انداز ہو گا اور الیکشن کا انعقاد مشکوک ہو جائے گا۔
آج سب کی زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ نگران وزیراعظم کون ہو گا ؟ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کا کسی نام پر اتفاق نہ ہونا ایک طرف سیاسی افراتفری کو جنم دے رہا ہے تو دوسری جانب یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن اتنا طاقت ور نہیں ہوا کہ ایسے الیکشن کا انتظام کر سکے کہ جس کی شفافیت پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔