لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ ) ترجمان پاک فوج کی گفتگو سے یہ بات سامنے آگئی کہ پاکستان کے خفیہ ادارے سمجھتے ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور افغان خفیہ ایجنسی’’ این ڈی ایس ‘‘پاکستان مخالف ایجنڈے کا پرچار کرنے والی منظور پشتین کی پی ٹی ایم کی پشت پر کھڑی ہیں، وہ اس کی مالی مدد بھی کر رہی ہیں، ان پاکستان دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کا اس کو آگے بڑھانے میں ہاتھ ہے، اسی وجہ سے پی ٹی ایم بہت جلد قانون کے شکنجے میں آنے والی ہے اور اس بات کا فیصلہ ہو گیا ہے، اسی لئے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ پی ٹی ایم کا وقت ختم ہو گیا ہے۔
دنیا کامران خان کے ساتھ پروگرام کے میزبان کے مطابق ریاست نے فیصلہ کیا کہ قانونی کارروائی کی جائے گی، پی ٹی ایم کے خلاف کوئی آپریشن کی گفتگو نہیں ہوگی لیکن اس تنظیم اور اس کے رہنماؤں کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا، میزبان کا کہنا ہے کہ ان کی گرفتاریاں متوقع ہیں اور عدالتوں میں ایک بھرپور قانونی کارروائی شروع کی جاسکتی ہے، ترجمان پاک فوج نے قوم کو بتایا کہ ٹھوس انٹیلی جنس سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ پی ٹی ایم کے بھارت اور افغانستان سے تعلقات ہیں،’’را‘‘ اور ’’این ڈی ایس‘‘ نے اس کو پیسے دیئے ہیں۔
میزبان نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری بھی پی ٹی ایم سے جڑتے نظر آتے ہیں، اس حوالے سے معروف سیاسی تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا بھارت اور افغان حکومت ان حالات سے یقینی طور پر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی، ان کو موقع ملا ہے اور وہ پی ٹی ایم کے حق میں بات کر رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں ہر معاملے میں سیاست ہے، آصف زرداری بھی اس سے پہلے سکیورٹی اداروں کے خلاف گفتگو کر چکے ہیں پھر وہ دبئی چلے گئے اور کافی عرصے بعد ان کی واپسی ہوئی، پیپلز پارٹی کی اپنی شکائتیں ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ انتقام لیا جا رہا ہے وہ اس کو اس معاملے کے ساتھ جوڑ رہے ہیں، پی ٹی ایم کے بارے میں شروع میں عمران خان سے لے کر ساری جماعتوں نے کہا تھا ان کے مطالبات جائز ہیں لیکن طریق کار ٹھیک نہیں طریق کار اتنا اشتعال انگیز بن گیا تھا کہ وہ فوج کو برا لگا اور فوج نے کہا ریڈ لائن کراس نہ کریں اب شاید فوج سمجھتی ہے کہ سرخ لکیروں کو کراس کر لیا گیا ہے اس لئے کارروائی ہونی چاہیے۔
پروگرام کے میزبان کے مطابق پاکستان میں ہر طرح کی انتہا پسندی کی بیخ کنی ہو اور اس کے جو بھی ذریعے ہیں، ان کے خلاف بھرپور ایکشن ہو، ماس نقطہ پر ریاست پاکستان جس طرح اب مجتمع نظر آتی ہے اس سے پہلے نظر نہیں آئی تھی، اس کی اندرونی و بیرونی وجوہات بھی ہیں، پاکستان پر بیرونی دنیا کا بہت دباؤ ہے کہ پاکستان اس حوالے سے فیصلہ کن کارروائی کرے، پاکستان کے سکیورٹی ادارے اور سیاسی قیادت اس مشن میں پوری طرح سے شریک ہیں، فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کئی بار کہ چکے ہیں کہ جہاد صرف ریاست کا حق ہے اور کسی فرد یا گروپ کو اس کا اختیار نہیں ہے، اسی پس منظر میں بھرپور کارروائیاں ہو رہی ہیں اب جو ایکشن لئے جا رہے ہیں وہ اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آئے، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اس حوالے سے بھرپور پریس کانفرنس کی ہے، انہوں نے اس کا بڑا حصہ ان اقدامات کے حوالے سے صرف کیا جو اس وقت ملک میں کئے جا رہے ہیں انھوں نے وہ پس منظر بھی بیان کیا جس کی وجہ سے انتہا پسندی کو فروغ ملا انھوں نے افغان جنگ کا پس منظر بیان کیا اور بتایا کہ کس طرح سے پاکستان میں بڑی تعداد میں دینی مدارس بنے جو جہاد کی اکیڈمی بن گئے ان کو بنانے میں مغرب اور دیگر بہت سے ملکوں نے حصہ لیا لیکن اس کے اثرات پاکستان سہہ رہا ہے تاہم اب ان تمام معاملات کو از سر نو ڈیل کیا جا رہا ہے اور اس میں بھرپور اصلاحات لائی جا رہی ہیں اس سلسلے میں مدارس کو ریگولیٹ کرنے کا کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے، ایک اور بات جس کو زیادہ مشتہر نہیں کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ کالعدم تنظیموں کے حوالے سے بھی دور رس ایکشن لئے گئے ہیں اس ضمن میں شکایات کو رفع کرنے میں بہت زیادہ کام ہو چکا ہے اور مزید بھی ہو رہا ہے آج افواج پاکستان کی جانب سے ایک کلیدی بیان سامنے آیا ہے یعنی نیشنل ایکشن پلان پر اب اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کے لئے افواج پاکستان مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں اور آج اس اہم پیش رفت کی اطلاع خود افواج پاکستان کے ترجمان کی جانب سے دی گئی ہے کہ مدارس کو قومی دھارے میں لایا جا رہا ہے یہ کام مکمل ہوچکا ہے اور تمام علما کرام اس پر متفق ہیں۔
میزبان کا کہنا ہے کہ دنیا میں پاکستان کے امیج کو بہتر بنانے کے لئے یہ بہت دور رس کام ہے اور پوری ذمہ داری سے کہا جاسکتا ہے کہ اس دفعہ بھرپور، حقیقی کارروائی ہورہی ہے، اس حوالے سے سکیورٹی امور کے ماہر امتیاز گل نے کہا کہ جنرل آصف غفور نے آج دو خوش خبریاں دی ہیں ایک یہ کہ مدارس کو وزارت صنعت سے نکال کر وزارت تعلیم اور ہائر ایجوکیشن بورڈ کے ماتحت کر دیا جائے گا اور دوسری بڑی خوش خبری یہ ہے کہ پاکستان کا سب سے منظم ریاستی ادارہ کی طرف سے باقاعدہ اعلان ہوا ہے کہ حکومت پاکستان نے آج مدارس کو قومی دھارے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ انہی خطوط پر ہوگا جن پر ترکی، انڈونیشیا اور ملائشیا جیسے ملکوں میں استوار ہیں اس کے عوامل اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی ہیں اندرونی عوامل میں پانچ وفاق المدارس مادر پدر آزاد تھے، ہر وفاق اپنے اپنے انداز سے تعلیم دے رہا ہے اس وجہ سے معاشرے میں بڑا خلفشار اور بگاڑ پیدا ہوا ہے بیرونی عوامل میں ایف اے ٹی ایف کے تحت ہم نے 27 نکاتی ایکشن پلان پر اتفاق کیا ہے انھوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ دو ٹوک انداز میں یہ پیغام آیا ہے، اصل امتحان اس پر عملدرآمد کرانے کا ہو گا یہ کام آج سے پابچ دس سال پہلے ہو جانا چاہئے تھا ہمیں ایک پاکستانی کے طور پر خوشی ہے کہ بالآخر ریاست پاکستان کی طرف سے دو ٹوک فیصلہ سامنے آیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر تمام ادارے شدو مد کے ساتھ عملدرآمد کریں۔ کالعدم تنظیموں کی مکمل تحلیل کے لئے ریاست کام کر رہی ہے پہلئی بار قومی سطح پر ایک ریگولیٹری فریم ورک تیار کیا جا رہا ہے جس کے تحت تمام مدارس کی مانیٹرنگ ہوگی ان کے نصاب اور فنڈنگ کے ذرائع پر نظر رکھی جاسکے گی۔ ہمارے پاس اب بھی ستمبر تک کا وقت ہے اور اس کے کچھ آثار بھی ظاہر ہوگئے تو پاکستان کی بڑی کامیابی ہوگی۔ لگ رہا ہے پاکستان میں بہت بڑا پیرا ڈائم شفٹ آیا ہے یعنی پالیسی کی تبدیلی ہے اور شکر کی بات ہے کہ یہ تبدیلی بالآخر اب واضح انداز میں آئی ہے۔
میزبان نے بتایا کہ میجر جنرل آصف غفور نے بھارت کو بھی واضح پیغام دیا ہے کہ اگر بھارت کی خواہش ہے کہ 27 فروری جیسا کوئی اور ایک اور ایکشن کرنا ہتے تو ضرور پنجہ آزما کر اپنی حسرت پوری کر لے ورنہ امن کے لئے پاکستان کے دروازے کھلے ہیں اس کے لئے جروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر بات کرے کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات ہوسکتی ہے۔ ترجمان پاک فوج نے بھارتی رہنماؤں کی ہرزہ سرائی کے حوالے سے کہا یہ بھارت کے اندرونی عوامل اور عوام کے لئے ہے الیکشن کے بعد دوسرا ماحول پیدا ہوسکتا ہے اور تبدیلی دیکھنے میں آسکتی ہے۔ جنرل آصف غفور کی پالیسی پریس کانفرنس میں بھارت کے لئے اہم پیغام ان کا کہنا تھا پاکستان امن کے ہر اشارے کا خیر مقدم کرے گا اس حوالے سے انھوں نے خاص طور پر سی پیک کا ذکر کیا اور کہا آزادانہ تجارت کے لئے ضروری ہے مسئلہ کشمیر حل ہو، بھارت سی پیک میں بھی شامل ہو اور خطے میں امن کا ماحول بھی قائم ہوسکتا ہے تجارت کے لئے بھی راہیں کھل سکتی ہیں۔ اس حوالے سے دفاعی تجزیہ کار، لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد نے کہا کہ پاکستان یہ پیشکش پہلے بھی کر چکا ہے اور چین نے تو یہاں تک کہ دیا تھا کہ وہ اس کاریڈور کا نام بھی تبدیل کر دیں گے، بھارت کے اندر سے بھی آوازیں آ رہی ہین کہ بھارت ایک سنہری موقع ضائع کر رہا ہے لیکن میرے تجزیہ کے مطابق ایسا ہونے والا نہیں ہے۔ بھارت کو امریکہ اس خطے کا پولیس مین بنانا چاہتا ہے اور بھارت نے فی الحال امریکہ کی یہ پیشکش قبول کر لی ہے دوسرے بی جے پی آر ایس ایس کا سیاسی چہرہ ہے پاکستان اور مسلمانوں کے ساتھ ان کا رویہ بالکل واضح ہے میرا نہیں خیال کہ وزیر اعظم عمران خان نے جو امید رکھی ہوئی ہے یا ڈی جی آئی ایس پی آر نے جس امید کا اظہار کیا ہے وہ کسی بھی طرح سے پوری ہونے والی ہے۔