لاہور: (امتیاز گل) کیا وزیراعظم عمران خان سے چمٹے کچھ بوجھ ان کو ڈبو رہے ہیں ؟ کیا معاون خصوصی وہ بھاری بوجھ ہیں جو خان کیلئے مکافات عمل کا سبب بن جائیں گے ، کیا قطر سے مہنگی ایل این جی خریدنے والے کیس کا سامنا کریں گے ؟ دوسرا بوجھ ایک مشیر ہیں جنہوں نے سی پیک کیخلاف باتیں کر کے چین سے تعلقات کا ستیاناس کر دیا تھا، ایک وفاقی وزیر بھی ان میں شامل ہیں جو پی ٹی آئی پر بوجھ ہیں۔ انہوں نے کئی ماہ قبل روپے کی قدر کم ہونے کے بارے میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈالر 140 روپے سے بڑھ جائے گا۔ اسی طرح کراچی سے ایک وفاقی وزیر ہیں جو ہمیشہ بے تکی اور بے سروپا باتیں کرتے ہیں۔ یہ سب لوگ اپنی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کے سبب نہ صرف انتظامی بحران کا تاثر پیدا کرتے ہیں بلکہ مفادات کے ٹکراؤ کے اظہار کا ایک مسلسل ذریعہ ہیں۔
ایک معاون خصوصی کی تعیناتی وزیراعظم کی طرف سے مفادات کے ٹکراؤ کی روک تھام کے دعوؤں کی صریح خلاف ورزی ہے، وہ انرجی سیکٹر کے بڑے کھلاڑی ہیں اور ایک آئی پی پی کے بڑے حصہ دار ہیں جو دسمبر 2018ء سے سوئی ناردرن کی 2.6 ارب روپے کی نادہندہ ہے۔ ایسی صورت میں اسے ایس این جی پی ایل کی سب سے بڑی نادہندہ کہا جاسکتا ہے، اس سے زیادہ ستم ظریفی کیا ہو گی کہ وزیراعظم آئل اینڈ گیس کے ذخائر کے دریافت کے امکانات کی بات کر رہے ہیں جبکہ ان کے معاون خصوصی ڈرلنگ کی ناکامی کا اعلان کر رہے ہیں۔ وزیراعظم جو اکثر و بیشتر بلا سوچے سمجھے ردعمل کا اظہار کرتے رہتے ہیں انہیں اس خوفناک صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے، انہیں کیکڑاون سے بڑی خوشخبری ملنے کی سرگوشی کرنے والے کی نشاندہی کر کے اسے سزا دینی چاہئے۔ اس اچھی خبر نے او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کے شیئرز بڑھا دئیے اور کچھ لوگوں کی جیبیں بھر گئیں۔
وزیراعظم کو کس قدر پریشان کن صورتحال کا سامنا ہے۔ کیکڑا ون کے معاملے میں اطالوی کمپنی ای این آئی اور ایگزون موبل کو بڑا فائدہ ہوا۔ او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کو آپریشن پر آنیوالے اخراجات 10 کروڑ ڈالر میں سے 50 فیصد برداشت کرنا ہوں گے۔ اس معاملے میں کس نے زیادہ فائدہ اٹھایا خاص طور پر ایسی صورت میں جب یہ معلوم تھا کہ اس سے قبل 14 بار ایسی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں ؟ خان کو اس امر کی یاد دہانی کی ضرورت ہے کہ جن کی کمپنی 2.6 ارب روپے کی نادہندہ ہے اور پی پی کے ساتھ ان کے بلاواسطہ اور بلواسطہ مفادات ہیں ان کو اب ایسی اہم پوزیشن پر برقرار رہنا چاہیے۔ کیا یہ ملی بھگت کی انتہا نہیں ہے کہ پاور سیکٹر کے ڈان جنہوں نے اوگرا کے ساتھ ملی بھگت کر کے اپنی کمپنی کیلئے جولائی 2016ء میں فی یونٹ 14 روپے کا ٹیرف منظور کرایا اور اگلے روز اوگرا کو دیگر کمپنیوں کے لئے نرخ 5 روپے تک کم کرنے کا کہا گیا۔ کول پاور پلانٹس کیلئے شریف برادران کو قائل کرنے کے پیچھے ماسٹر مائنڈ کون تھا ؟ نواز شریف کی قائم کردہ توانائی کمیٹی کا مشیر کون تھا ؟ خان کیلئے سب سے اہم سوال یہ ہو گا کہ کیا وہ قطر کے ساتھ قابل اعتراض نرخوں پر ایل این جی فراہمی کا معاہدہ کرنے کی اجازت دیں گے ؟ نواز شریف کے دور میں پاکستان نے 13.37 ڈالر پر معاہدہ کیا۔
توقع ہے معاون خصوصی 10.7 ڈالر پر معاہدہ کریں گے جبکہ ایل این جی کا اوسط کارگو نرخ 9.62 ڈالر ہے۔ مالی فائدہ کہاں ہے ؟ مالی فائدہ وسط سے طویل المدتی معاہدوں کے بجائے موقع پر خریداری میں ہے۔ اس کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس میں شفافیت نہیں ہے۔ پیپرا رولز کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے معاون خصوصی کھلی بولی کے بجائے خود نرخوں پر بات چیت کر رہے ہیں۔ شفافیت کہاں ہے ؟ کیا وزیراعظم اپنی صفوں کو شیخی بھگارنے والوں اور مفادات کا ٹکراؤ رکھنے والوں سے پاک کریں گے یا ‘‘اسٹیٹس کو’’ کی قوتوں کے ساتھ گزارا کرتے رہیں گے۔