لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) حکومت کی جانب سے کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضہ کے خلاف شدید رد عمل کے بعد عالمی سطح پر مسئلہ کو اجاگر کرنے اور رائے عامہ کو ساتھ ملانے کیلئے سفارتی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے، سکیورٹی کونسل کے اجلاس کے بعد عالمی طاقتوں کی جانب سے کشمیر کے حوالے سے پیدا شدہ صورتحال پر تشویش کے بعد مسئلہ بہت حد تک عالمی بنا۔ عالم اسلام جن سے اس صورتحال کے حوالے سے بہت سی توقعات تھیں ان کی جانب سے ماسوائے ترکی کے خاطر خواہ رد عمل سامنے نہ آیا۔ جس پر وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سعودی عرب اور ابوظہبی کے ولی عہد سے مسلسل روابط کا سلسلہ جاری رہا۔
او آئی سی کی جانب سے کشمیر کے حوالے سے آنے والے بیان خصوصاً انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر تشویش کے اظہار سے کسی حد تک اطمینان ہوا۔ لہٰذا آج سعودی عرب کے وزیر مملکت عا دل الجبیر اور یو اے ای کے وزیر خارجہ کی اسلام آباد آمد کو بھی کشمیر کاز پر پاکستان کی سفارتی کوششوں اور کاوشوں کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ کیونکہ یہ وہ ممالک ہیں جن کے پاکستان سے جذباتی رشتے ہیں اور پاکستان کے عوام کے اندر بھی ان کا احترام، دیگر ممالک سے بہت زیادہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ان کی سرد مہری کے جواب میں گرمجوشی اور ان سے مسلسل روابط کے بعد اس امر کا قوی امکان ہے کہ مذکورہ ممالک بھی کشمیر کی صورتحال پر اپنے اصولی مؤقف کا اظہار کریں گے۔ لہٰذا دیکھنا یہ ہوگا کہ سفارتی محاذ پر پاکستان کی کوششیں اور کاوشیں کس حد تک رنگ لائیں گی ؟ کیا پاکستانی مؤقف کو عالمی محاذ پر پذیرائی ملے گی ؟ اور خصوصاً مشکل کے اس وقت میں پاکستان اپنی معاشی صورتحال میں بہتری بھی لا سکے گا ؟۔
جہاں تک سفارتی محاذ پر سرگرمیوں اور اقدامات کا تعلق ہے تو اب تک کی کوششوں اور کاوشوں سے ظاہر ہوا ہے کہ کشمیر کو عالمی حیثیت ملی ہے ۔ دنیا میں اس ایشو کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے ۔ بھارت کی پرزور کوششوں کے باوجود پاکستانی مؤقف کو پذیرائی مل رہی ہے، لیکن پاکستان کو حقیقی کامیابی اس وقت ملے گی جب سلامتی کونسل کے باضابطہ اجلاس میں کشمیر کے مسئلہ پر سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے اس حوالے سے اس کی قراردادوں پر عملدرآمد پر کوئی پیش رفت ہوگی جس کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ خارجہ محاذ پر حکومتی اور خارجہ آفس اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر عالمی برادری کی توجہ حاصل کرنے اور انہیں اپنا ہمنوا بنانے کیلئے سرگرم عمل نظر آ رہے ہیں۔ سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکٹانے سے قبل پاکستان کے دوست ممالک کو اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔ چین، روس اور فرانس کی جانب سے تو اچھی اطلاعات ہیں، لیکن مسلم دنیا کی خاموشی سے پریشانی تھی۔ جسے اب دور کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کیونکہ پاکستان نہیں چاہتا کہ اس مرحلہ پر اس کاز پر ہمارے دوست اسلامی ممالک فاصلے پر رہیں۔ پاکستان کو عالمی محاذ پر یہ منوانا لازم ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ یہ عالمی مسئلہ ہے۔ اس پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں اور مسئلہ کا حل انہیں قراردادوں کے تحت ہونا چاہئے۔
وزیراعظم عمران خان یہ تو کہتے نظر آ رہے ہیں کہ کشمیر کاز پر آخری حد تک جائیں گے۔ لیکن آخری حد تک جانے کیلئے حکمت عملی کیا ہے ؟ اس پر وضاحت لازم ہے۔ پاکستان کی ذمہ داری یہی ہے کہ بھارت پر عالمی دباؤ بڑھایا جائے اور اسے کشمیر میں ظلم و جبر اور فوج کشی سے باز رکھتے ہوئے مسئلہ کے حل کی طرف پیش رفت پر لایا جائے اور یہ صرف پاکستان نہیں کر سکتا اس کیلئے عالم اسلام کا ساتھ ہونا اور عالمی قوتوں کے دباؤ کو بروئے کار لانا ضروری ہے جس کیلئے ایک جامع قومی حکمت عملی قائم کرنا ہوگی۔ جہاں تک صدر ٹرمپ اور ان کی ثالثی کے عمل کا سوال ہے تو پاکستان کو اس حوالے سے زیادہ مطمئن نہیں ہونا چاہئے۔ ثالثی کا عمل تبھی کارگر ہوتا ہے جب مسئلہ پر اس کی اصل سپرٹ کے مطابق عملدرآمد ہو۔ پاکستان کشمیر پر ثالثی کی بات کرتا رہا ہے مگر بھارت اس سے گریزاں رہا۔ لیکن ثالثی کے مقاصد کیا ہوں گے ابھی اس پر کوئی بھی کسی کو مطمئن نہیں کر سکتا۔