لاہور: (روزنامہ دنیا) میزبان 'دنیا کامران خان کے ساتھ' کے مطابق بھارت کے حوالے سے دنیا میں پھیلتی ہوئی بد دلی اور مقبوضہ کشمیر کے بارے میں دنیا کی بڑھتی ہوئی دلچسپی، افغانستان اور امریکا کے تعلقات کے حوالے سے طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدے کی اطلاعات کی وجہ سے اسلام آباد عالمی سفارت کاری کا مرکز بن رہا ہے، وزیر اعظم عمران خان پچھلے چند روز سے ٹیلیفون پر سفارت کاری میں مصروف ہیں۔ پچھلے تین ہفتے میں ان کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے تین بار، متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید النہیان اور کئی دیگر ممالک کے سربراہوں سے بات چیت ہوئی۔ جس کے بعد اسلام آباد میں وزرائے خارجہ کی آمد آمد ہے۔
پروگرام کے میزبان کے مطابق یہ دورے کشمیر کے حوالے سے ہو رہے ہیں، وزارت خارجہ میں ان کی اہم ملاقاتیں ہیں، وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے دونوں اہم ترین عرب وزرائے خارجہ کی ملاقاتیں ہوں گی۔ آج کا دن ان دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقاتوں اور کشمیر پر ان کی پالیسی کے حوالے سے بہت اہم ہوگا۔ پاکستان اپنا موقف کھل کر ان دونوں وزرائے خارجہ کے سامنے رکھے گا اور اس کے اثرات یقیناً ہوں گے، اس کے علاوہ چین کے وزیر خارجہ اختتام ہفتہ پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ چینی وزیر خارجہ کا دورہ بہت اہم ہو گا، چین کی افغانستان کے معاملات میں بھی بہت دلچسپی ہے، کابل سے اطلاعات ہیں کہ امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ مکمل ہو چکا، اس کی دستاویزات بھی تیار ہو چکی ہیں اسی پس منظر میں چینی وزیر خارجہ پاکستان آرہے ہیں، اس سے قبل ان کی بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کے ساتھ ملاقات طے تھی۔ اب ان کو بتایا گیا کہ اجیت ڈوول یہ ملاقات اختتام ہفتہ کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت اس ملاقات کو ری شیڈول کرنا چاہتا ہے لیکن چین کے وزیر خارجہ نے بھارت کو ٹکا سا جواب دیا کہ ایسا نہیں ہوسکتا، اسی دوران افغانستان کے وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی ہفتے کے روز اسلام آباد پہنچیں گے اور پاک افغان تعلقات اور طالبان اور امریکا کے معاہدے کے سلسلے میں بات چیت کریں گے، بنگلہ دیش سے تعلقات کے حوالے سے بھی غیر معمولی خبر ہے۔
اس ضمن میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے سفارتی رابطوں کا آغاز کیا ہوا ہے، چین کے ساتھ قریبی رابطہ ہے، افغانستان کے معاملات بہت نازک مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں، اللہ خیر کرے گا، ایک مثبت انجام کی توقع ہے، عرب ممالک کے سامنے پاکستان، کشمیریوں کا نقطہ نظر رکھا جائے گا، دونوں وزرائے خارجہ کے سامنے چند گزارشات رکھی جائیں گی، دونوں وزرائے خارجہ اکٹھے آ رہے ہیں اور ان سے میری ملاقات مشترکہ ہو گی، انھوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو بنگلہ دیش کیلئے بھی ناقابل قبول ہے، ان کے منہ سے یہ جملہ نکلنا میرے لئے بڑا حوصلہ افزا ہے۔ یہ بھی طے ہوا ہے کہ ہم آپس میں رابطے میں رہیں گے۔